تشریح:
(1) ایک حدیث میں صراحت ہے کہ تیماداری کرنے والوں میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی تھے اور ﴿يُوصِيكُمُ اللَّـهُ فِي أَوْلَادِكُمْ﴾ نازل ہوئی تھی۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4577) ایک روایت میں ہے کہ میرا وارث تو کلالہ ہے۔ (صحیح البخاري، حدیث:5676) اس سے مراد ان کی بہنیں ہیں۔ یہ صراحت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی اولاد نہ تھی۔
(2) فقہاء کا اس پر اجماع ہے کہ حقیقی بہن یا بھائی یا پدری بہن بھائی، بیٹے اور پوتے کی موجودگی میں وارث نہیں ہوتے لیکن دادے کی موجودگی میں بہنوں کے وارث ہونے کے متعلق اختلاف ہے۔ ایک بہن ہو تو نصف، دویازیادہ کو دوتہائی، اگر صرف ایک بھائی ہو تو سارا مال اور متعدد ہوں تو اسے آپس میں تقسیم کریں گے۔ اگر بہن بھائی ملے جلے ہوں تو بھائی کو بہن سے دوگنا دیا جائے گا جیسا کہ قرآن کریم میں اس کی صراحت ہے، مذکورہ صورتوں میں کوئی اختلاف نہیں، البتہ درج ذیل صورت میں اختلاف ہے: ایک عورت فوت ہوئی، اس کا خاوند، ماں، دو مادری بہنیں اور حقیقی بھائی موجود تھا۔ اس صورت میں خاوند کا حصہ نصف، ماں کو1/6 اور دومادری بہنوں کو2/3 ملے گا۔ مسئلہ 6 سے ہوگا تین حصے خاوند کا، ایک حصہ ماں کا اور دو حصے مادری بہنوں کے ہیں، اس طرح ترکہ ختم ہو جاتا ہے اور حقیقی بھائی کے لیے کچھ نہیں رہتا، لہٰذا وہ محروم ہے۔ حضرت علی، حضرت ابی اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم کا یہی موقف ہے جبکہ جمہور اہل علم کہتے ہیں کہ حقیقی بھائی کو مادری بہنوں کے ساتھ 1/3 میں شریک کیا جائے، اسے محروم کرنا مناسب نہیں ہے۔(فتح الباري:32/12)