تشریح:
(1) اس حدیث میں ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اس لڑکے کے متعلق اپنا بھتیجا ہونے کا دعویٰ کیا جبکہ عبد بن زمعہ نے اس کے متعلق اپنے بھائی ہونے کا دعویٰ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فراش کو بنیاد بنا کر اس بیٹے کا الحاق عبد بن زمعہ سے کر دیا اور واضح مشابہت کی وجہ سے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔(2) بہرحال دعویٰ کرنے سے نسب ثابت نہیں ہوتا، چنانچہ جب کوئی شخص فوت ہو جائے اور ایک بیٹا چھوڑ جائے اور اس کا کوئی دوسرا وارث نہ ہو، پھر بیٹا کسی کے متعلق اقرار کرے کہ فلاں اس کا بھائی ہے تو امام مالک رحمہ اللہ اور اہل کوفہ کے نزدیک اس اقرار سے اس کا نسب ثابت نہیں ہوگا اور نہ اسے وراثت سے حصہ ہی دیا جائے گا۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ بیٹا اپنے والد کے قائم مقام ہے، لہٰذا اس کا اقرار ایسا ہے جیسے میت نے زندگی میں اس کا اقرار کیا تھا لیکن پہلا موقف زیادہ قرین قیاس ہے کیونکہ کسی کو اپنا بھائی کہنا باپ کی طرف اس کے بیٹا ہونے کی نسبت کرنا ہے، حالانکہ غیر کی طرف کسی کو منسوب کرنا جائز نہیں۔ ہاں اس کے قرائن موجود ہوں تو دوسری بات ہے۔ اس صورت میں کوئی قرینہ نہیں ہے جس کی بنا پر بھائی کے اقرار سے کسی کو باپ کا بیٹا ثابت کر دیا جائے۔ (عمدة القاري:47/16)