تشریح:
مذکورہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت ارشاد فرمائے جب فتح مکہ کہ موقع پر قبیلۂ مخزوم کی فاطمہ نامی ایک عورت نے چوری کی تھی اور اس کا ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ مقصد یہ ہے کہ حدود اللہ کے قیام ونفاذ کسی معزز اور معمولی وحقیر میں فرق نہ کیا جائے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ بلند مرتبہ لوگوں کو چھوڑ دیا جائے اور کمزوروناتواں پر حد جاری کر دی جائے۔ جو ان میں فرق کرے گا وہ اسلام کے طریقے کی مخالفت کرتا ہے اور ایسا کرنا معاشرے کی تباہی کا باعث ہے۔