تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تبلیغ و تعلیم کے لیے کچھ ایسے اوقات مقرر کیے جائیں جن میں سامعین اور متعلمین فراغت اور اطمینان کے ساتھ اسے جاری رکھ سکیں اور خوش دلی کے ساتھ اس کے سننے اور اس سے مستفید ہونے میں لگے رہیں اگر ہر وقت تبلیغ ہوتی رہے یا تعلیم دی جاتی رہے تو اس سے سامعین اور متعلمین اکتا کر کوتاہی کرنے لگ جاتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نشاط وملال اور حوائج و فراغت کا پورا خیال رکھتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی صرف جمعرات کے دن وعظ و تبلیغ کرتے لوگوں کے اصرار کے باوجود روزانہ تذکیر و تبلیغ سے احتراز کرتے تھے۔(فتح الباري: 214/1)