تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق سب سے پہلے یہ سوال کیا کہ تو دیوانہ ہے؟ کیونکہ کوئی صاحب شعور، اس طرح کا اعتراف واقرار نہیں کرتا جس کی پاداش میں وہ دنیا سے نیست ونابود ہو جاتا ہو، لیکن اس انسان کا ضمیر بیدار ہو چکا تھا۔ اسے بخوبی علم تھا کہ اس طرح موت سے وہ اس جرم سے پاک ہو جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اقرار کے بعد اس کے خاندان سے پتا کرایا کہ یہ شخص دیوانہ تو نہیں، قوم نے بالاتفاق گواہی دی کہ یہ شخص انتہائی سمجھ دار ہے۔ الغرض آپ نے اس سلسلے میں پوری تحقیق کی جیسا کہ آئندہ وضاحت آئے گی، اس کے بعد آپ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا۔
(2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ دیوانے کو ہوش آنے تک رجم کی سزا نہ دی جائے۔ (فتح الباري:150/12)