تشریح:
(1) اس حدیث کے مطابق حد زنا کے لیے تین چیزوں میں سے کسی ایک کا ہونا ضروری ہے: ٭وہ زنا گواہی سے ثابت ہو جائے، یعنی چار گواہ اس چیز کی وضاحت کے ساتھ گواہی دیں کہ ہم نے عمل زنا کرتے دیکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ موقع پر ایسی چار شہادتیں میسر آنا انتہائی مشکل ہے۔
(2) دراصل اس سخت نصاب سے مقصود یہ ہے کہ اگر کوئی شخص برائی دیکھے تو اس کے سامنے دوراستے ہیں: یا تو پردہ پوشی کرے یا پھر چار شہادتیں مہیا کرکے صرف حکومت کو مطلع کرے، تیسری راہ اختیار کرنا کہ ایسی باتیں لوگوں میں پھیلانا انتہائی خطرناک ہے۔ ٭حمل ظاہر ہو جائے، کنواری لڑکی کو حمل ہو جائے یا دیر تک قید رہنے والے شوہر کی بیوی حاملہ ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک غامدیہ عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور عرض کی: اللہ کے رسول مجھ پر حد جاری کریں کیونکہ میں زنا سے حاملہ ہوں۔ (صحیح مسلم، الحدود، حدیث:4431(1695) اس صورت میں حد زنا کے نفاذ کے لیے بچے کا جنم دینا ضروری ہے۔ ٭زنا کا اقرارواعتراف کرنا، جب زانی مرد یا عورت زنا کا خود اقرار کرے تو اس پر حد جاری کی جا سکتی ہے جیسا کہ قصۂ عسیف میں بیان ہوا ہے۔ اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اُنیس رضی اللہ عنہ کو بھیجا تھا کہ اگر وہ عورت زنا کا اقرار کرے تو اسے رجم کر دینا، چنانچہ اس نے اقرار کیا تو اسے سنگسار کر دیا گیا۔ (صحیح البخاري، الحدودِ حدیث:6827) امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث سے ثابت کیا ہے کہ زنا کے ثبوت کے لیے زانی مرد یا عورت کا اقرارواعتراف بھی کافی ہے۔