تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گناہ کے ارتکاب پر مارتے تھے، اپنے ذاتی معاملات میں آپ نے کسی سے کوئی انتقام نہیں لیا بلکہ درگزر اور معافی سے کام لیا ہے، البتہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی حدیں توڑتا آپ اسے ضرور سزا دیتے تھے جیسا کہ غزوۂ تبوک میں جان بوجھ کر پیچھے رہنے والے تین صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے سوشل بائیکاٹ کیا تھا، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو تہمت کے معاملے میں قید کیا۔ (سنن أبي داود، القضاء، حدیث:3630)
(2) بہرحال تعزیروتنبیہ کا معاملہ وقت، حالات اور افراد کے پیش نظر کم اور زیادہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے متعلق کوئی پیمانہ مقرر نہیں ہے۔ واللہ أعلم