تشریح:
(1) اس حدیث کے مطابق ایک مسلمان کا خون ناحق بہت ہی بڑا گناہ ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفر سے تعبیر کیا ہے۔ کفر کی تاویل میں چند اقوال حسب زیل ہیں: ٭ ایک دوسرے کو مارنا اس وقت کفر ہے جب مسلمان کے قتل ناحق کو حلال سمجھا جائے۔ ٭اس سے مراد کفران نعمت، یعنی حق اسلام کی ناشکری ہے۔ ٭ایسا کرنے والا کفر کے قریب پہنچ جاتا ہے اور یہ فعل کفر تک پہنچا دیتا ہے۔ ٭یہ فعل کافروں جیسا ہے، یعنی ایک دوسرے کی گردن مارنے میں کافروں سے تشبیہ دی ہے۔ ٭اس سے مراد حقیقی کفر ہے، یعنی تم کفر نہ کرو بلکہ ہمیشہ مسلمان بن کر زندگی بسر کرو۔ ٭ایک دوسرے کو کفر کی طرف منسوب نہ کرو بصورت دیگر ایک دوسرے کے قتل کو جائز سمجھو گے۔ ٭ یہ اپنے ظاہری معنی پر محمول نہیں بلکہ اس سے مراد زجروتوبیخ اور ڈانٹ ڈپٹ ہے۔ ٭ تم ہتھیار پہننے والے نہ بن جاؤ کیونکہ ہتھیار پہننے والے کو بھی کافر کہا جاتا ہے۔ (فتح الباري:240/12)
(2) بہرحال قتل ناحق بہت بڑا جرم ہے لیکن افسوس کہ قرن اول ہی سے دشمنان اسلام نے سازش کر کے مسلمانوں کو آپس میں ایسا لڑایا کہ امت مسلمہ آج تک اس کی ٹیس محسوس کر رہی ہے۔