تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ اس یہودی نے لڑکی کے زیورات چھیننے کے لیے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا، لیکن ابھی کچھ سانس باقی تھے کہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا۔ آپ نے پوچھا: تجھے فلاں نے قتل کیا تو اس نے سر سے اشارہ کیا کہ نہیں، پھر اس یہودی کا نام لیا گیا تو اس نے سر سے اشارہ کیا کہ ہاں، پھر اس یہودی سے تفتیش کی گئی تو اس نے اعتراف جرم کرلیا تو اسے بھی اس جرم کی پاداش میں کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا۔ (جامع الترمذي، الدیات، حدیث:1394)
(2) صرف مقتول کے کہنے سے کسی ملزم کو سزا نہیں دی جائے گی اور نہ داخلی یا خارجی قرائن ہی قصاص کے لیے کافی ہوتے ہیں بلکہ جب تک ملزم اپنے جرم کا اعتراف نہ کر لے اس وقت تک اسے سزا نہیں دی جا سکتی، چنانچہ حدیث میں ہے کہ اس یہودی نےاپنےجرم کا اعتراف کر لیا۔ (صحیح البخاري، الخصومات، حدیث:2413) اس لڑکی کے مرنے کے بعد یہودی سے اس کا قصاص لیا گیا کیونکہ لڑکی کو جب لایا گیا تھا تو وہ آخری سانس لے رہی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تجھے کس نے قتل کیا ہے؟ (فتح الباري:248/12)