تشریح:
(1) جان بوجھ کر قتل کرنے والے سے دیت لینے میں علمائے امت کا اختلاف ہے۔ علمائے کوفہ کا موقف ہے کہ قتل عمد میں دیت صرف اس وقت ہے جب قاتل دیت دینے پر راضی ہو ورنہ قصاص ہے جبکہ جمہور کا موقف ہے کہ مقتول کے ورثاء اگر قتل عمد میں دیت کا مطالبہ کریں تو قاتل کو دیت دینے پر مجبور کیا جائے گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے جمہور کی تائید میں یہ عنوان اور حدیث پیش کی ہے کہ مقتول کے ورثاء کو اختیار ہے کہ وہ قصاص لیں یا دیت لیں۔
(2) بنی اسرائیل میں قصاص ہی لازم تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو دیت لینے کی سہولت دی ہے اور اسے اپنی طرف سے تخفیف قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’یہ تمھارے رب کی طرف سے تخفیف ہے۔‘‘ (البقرة: 2: 178) ایک روایت میں ہے کہ مقتول کے ورثاء کو تین چیزوں میں سے ایک کا اختیار ہے: ٭قصاص لیں۔ ٭معاف کر دیں۔ ٭دیت پر صلح کر لیں۔ اگر کوئی چوتھی صورت نکالتا ہے تو اس کے ہاتھ روکے جا سکتے ہیں۔ (سنن أبي داود، الدیات، حدیث:4496) چوتھی چیز سے مراد قصاص یا دیت سے زیادہ کا مطالبہ ہے۔