تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قتل عمد میں دیت قبول کرنے یا قصاص لینے کا اختیار مقتول کے ورثاء کو ہے،اس میں قاتل کی رضامندی شرط نہیں۔ یہود کے ہاں صرف قصاص تھا جبکہ نصاریٰ میں قصاص کے بجائے معافی تھی لیکن اسلام نے اس افراط وتفریط کے درمیان میانہ روی کو اختیار کیا ہے کہ مقتول کے ورثاء اگر دیت پر راضی ہوجائیں تو انھیں اختیار ہے۔اگر قاتل قصاص دینے پر اصرار کرے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ اسے بھی دیت دینے پر مجبور کیا جائے کیونکہ قاتل بھی اپنی جان کی حفاظت کا ذمے دار ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’خود کو قتل نہ کرو۔‘‘ (النساء4: 29) اس لیے جب مقتول کے ورثاء دیت لینے پر رضامند ہوں تو قاتل کو اس سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث ابن عباس سے اس موقف کو ثابت کیا ہے۔ (فتح الباري:255/12، 256)