تشریح:
(1) مقتول کے اقرار سے کچھ ثابت نہیں ہوتا، لڑکی سے صرف اس لیے پوچھا گیا تھا کہ مشکوک شخص کی نشاندہی ہو جائے، پھر اس سے پوچھا جائے، اگر اقرار کر لے تو حسب ضابطہ کارروائی عمل میں لائی جائے۔
(2) اہل کوفہ نے قتل کو زنا پر قیاس کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ قاتل کو کم ازکم دو بار اقرار کرنا چاہیے، محض ایک مرتبہ اقرار کرنا کافی نہیں۔ لیکن جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ قاتل اگر ایک بار اعتراف کر لے تو کافی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے جمہور کی تائید کرتے ہوئے یہ حدیث پیش کی ہے کہ قاتل یہودی نے صرف ایک مرتبہ ہی اقرار کیا، پھر اسے کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا۔ اس سےبار بار اقرار نہیں کرایا گیا۔ اس حدیث میں عدد کا کوئی ذکر نہیں، لہٰذا مطلق اقرار ہی کافی ہے۔