تشریح:
(1) اگر کوئی مسلمان کسی رش یا حادثے میں مارا جائے تو اس کی دیت کے متعلق حسب ذیل اقوال ہیں: ٭ایسے قتل کی دیت بیت المال سے دی جائے۔ ٭قتل کی دیت ان لوگوں پر ہے جو اس وقت موجود تھے۔ ٭مقتول کے وارث سے کہا جائے کہ تم کسی ایک کو نامزد کرو، پھر وہ اگر قسم اٹھائے تو دیت کا حقدار ہوگا اور اگر قسم سے انکار کر دے تو مدعی علیہ کی قسم سے دعویٰ ختم ہو جائے گا۔ ٭ایسا خون رائیگاں اور ضائع ہے کسی سے دیت کا مطالبہ نہیں ہوگا۔
(2) ہمارے رجحان کے مطابق اس کے متعلق یہ موقف قرین قیاس ہے کہ بیت المال سے اس کی دیت ادا کر دی جائے تاکہ ایک مسلمان کا خون رائیگاں اور ضائع نہ ہو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے والد کی دیت از خود بیت المال سے ادا کی تھی۔ اس کی تائید حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایک عمل سے بھی ہوتی ہے کہ جمعہ کے دن ایک آدمی رش میں مارا گیا تو انھوں نے بیت المال سے اس کی دیت ادا کی۔ دور حاضر میں حکومت کا فرض ہے کہ وہ قومی خزانےسےحادثات میں مرنےوالوں کی دیت ادا کرے۔ (فتح الباري:271/12)