قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الدِّيَاتِ (بَابُ القَسَامَةِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ الأَشْعَثُ بْنُ قَيْسٍ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: «شَاهِدَاكَ أَوْ يَمِينُهُ» وَقَالَ [ص:9] ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ: «لَمْ يُقِدْ بِهَا مُعَاوِيَةُ» وَكَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ العَزِيزِ، إِلَى عَدِيِّ بْنِ أَرْطَاةَ، وَكَانَ أَمَّرَهُ عَلَى البَصْرَةِ، فِي قَتِيلٍ وُجِدَ عِنْدَ بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ السَّمَّانِينَ: «إِنْ وَجَدَ أَصْحَابُهُ بَيِّنَةً، وَإِلَّا فَلاَ تَظْلِمُ النَّاسَ، فَإِنَّ هَذَا لاَ يُقْضَى فِيهِ إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ»

6899. حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْأَسَدِيُّ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَبِي عُثْمَانَ حَدَّثَنِي أَبُو رَجَاءٍ مِنْ آلِ أَبِي قِلَابَةَ حَدَّثَنِي أَبُو قِلَابَةَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَبْرَزَ سَرِيرَهُ يَوْمًا لِلنَّاسِ ثُمَّ أَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا فَقَالَ مَا تَقُولُونَ فِي الْقَسَامَةِ قَالَ نَقُولُ الْقَسَامَةُ الْقَوَدُ بِهَا حَقٌّ وَقَدْ أَقَادَتْ بِهَا الْخُلَفَاءُ قَالَ لِي مَا تَقُولُ يَا أَبَا قِلَابَةَ وَنَصَبَنِي لِلنَّاسِ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عِنْدَكَ رُءُوسُ الْأَجْنَادِ وَأَشْرَافُ الْعَرَبِ أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ خَمْسِينَ مِنْهُمْ شَهِدُوا عَلَى رَجُلٍ مُحْصَنٍ بِدِمَشْقَ أَنَّهُ قَدْ زَنَى لَمْ يَرَوْهُ أَكُنْتَ تَرْجُمُهُ قَالَ لَا قُلْتُ أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ خَمْسِينَ مِنْهُمْ شَهِدُوا عَلَى رَجُلٍ بِحِمْصَ أَنَّهُ سَرَقَ أَكُنْتَ تَقْطَعُهُ وَلَمْ يَرَوْهُ قَالَ لَا قُلْتُ فَوَاللَّهِ مَا قَتَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدًا قَطُّ إِلَّا فِي إِحْدَى ثَلَاثِ خِصَالٍ رَجُلٌ قَتَلَ بِجَرِيرَةِ نَفْسِهِ فَقُتِلَ أَوْ رَجُلٌ زَنَى بَعْدَ إِحْصَانٍ أَوْ رَجُلٌ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَارْتَدَّ عَنْ الْإِسْلَامِ فَقَالَ الْقَوْمُ أَوَلَيْسَ قَدْ حَدَّثَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطَعَ فِي السَّرَقِ وَسَمَرَ الْأَعْيُنَ ثُمَّ نَبَذَهُمْ فِي الشَّمْسِ فَقُلْتُ أَنَا أُحَدِّثُكُمْ حَدِيثَ أَنَسٍ حَدَّثَنِي أَنَسٌ أَنَّ نَفَرًا مِنْ عُكْلٍ ثَمَانِيَةً قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَايَعُوهُ عَلَى الْإِسْلَامِ فَاسْتَوْخَمُوا الْأَرْضَ فَسَقِمَتْ أَجْسَامُهُمْ فَشَكَوْا ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَفَلَا تَخْرُجُونَ مَعَ رَاعِينَا فِي إِبِلِهِ فَتُصِيبُونَ مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا قَالُوا بَلَى فَخَرَجُوا فَشَرِبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا فَصَحُّوا فَقَتَلُوا رَاعِيَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَطْرَدُوا النَّعَمَ فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَرْسَلَ فِي آثَارِهِمْ فَأُدْرِكُوا فَجِيءَ بِهِمْ فَأَمَرَ بِهِمْ فَقُطِّعَتْ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ وَسَمَرَ أَعْيُنَهُمْ ثُمَّ نَبَذَهُمْ فِي الشَّمْسِ حَتَّى مَاتُوا قُلْتُ وَأَيُّ شَيْءٍ أَشَدُّ مِمَّا صَنَعَ هَؤُلَاءِ ارْتَدُّوا عَنْ الْإِسْلَامِ وَقَتَلُوا وَسَرَقُوا فَقَالَ عَنْبَسَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَاللَّهِ إِنْ سَمِعْتُ كَالْيَوْمِ قَطُّ فَقُلْتُ أَتَرُدُّ عَلَيَّ حَدِيثِي يَا عَنْبَسَةُ قَالَ لَا وَلَكِنْ جِئْتَ بِالْحَدِيثِ عَلَى وَجْهِهِ وَاللَّهِ لَا يَزَالُ هَذَا الْجُنْدُ بِخَيْرٍ مَا عَاشَ هَذَا الشَّيْخُ بَيْنَ أَظْهُرِهِمْ قُلْتُ وَقَدْ كَانَ فِي هَذَا سُنَّةٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهِ نَفَرٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَتَحَدَّثُوا عِنْدَهُ فَخَرَجَ رَجُلٌ مِنْهُمْ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ فَقُتِلَ فَخَرَجُوا بَعْدَهُ فَإِذَا هُمْ بِصَاحِبِهِمْ يَتَشَحَّطُ فِي الدَّمِ فَرَجَعُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ صَاحِبُنَا كَانَ تَحَدَّثَ مَعَنَا فَخَرَجَ بَيْنَ أَيْدِينَا فَإِذَا نَحْنُ بِهِ يَتَشَحَّطُ فِي الدَّمِ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ بِمَنْ تَظُنُّونَ أَوْ مَنْ تَرَوْنَ قَتَلَهُ قَالُوا نَرَى أَنَّ الْيَهُودَ قَتَلَتْهُ فَأَرْسَلَ إِلَى الْيَهُودِ فَدَعَاهُمْ فَقَالَ آنْتُمْ قَتَلْتُمْ هَذَا قَالُوا لَا قَالَ أَتَرْضَوْنَ نَفَلَ خَمْسِينَ مِنْ الْيَهُودِ مَا قَتَلُوهُ فَقَالُوا مَا يُبَالُونَ أَنْ يَقْتُلُونَا أَجْمَعِينَ ثُمَّ يَنْتَفِلُونَ قَالَ أَفَتَسْتَحِقُّونَ الدِّيَةَ بِأَيْمَانِ خَمْسِينَ مِنْكُمْ قَالُوا مَا كُنَّا لِنَحْلِفَ فَوَدَاهُ مِنْ عِنْدِهِ قُلْتُ وَقَدْ كَانَتْ هُذَيْلٌ خَلَعُوا خَلِيعًا لَهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَطَرَقَ أَهْلَ بَيْتٍ مِنْ الْيَمَنِ بِالْبَطْحَاءِ فَانْتَبَهَ لَهُ رَجُلٌ مِنْهُمْ فَحَذَفَهُ بِالسَّيْفِ فَقَتَلَهُ فَجَاءَتْ هُذَيْلٌ فَأَخَذُوا الْيَمَانِيَّ فَرَفَعُوهُ إِلَى عُمَرَ بِالْمَوْسِمِ وَقَالُوا قَتَلَ صَاحِبَنَا فَقَالَ إِنَّهُمْ قَدْ خَلَعُوهُ فَقَالَ يُقْسِمُ خَمْسُونَ مِنْ هُذَيْلٍ مَا خَلَعُوهُ قَالَ فَأَقْسَمَ مِنْهُمْ تِسْعَةٌ وَأَرْبَعُونَ رَجُلًا وَقَدِمَ رَجُلٌ مِنْهُمْ مِنْ الشَّأْمِ فَسَأَلُوهُ أَنْ يُقْسِمَ فَافْتَدَى يَمِينَهُ مِنْهُمْ بِأَلْفِ دِرْهَمٍ فَأَدْخَلُوا مَكَانَهُ رَجُلًا آخَرَ فَدَفَعَهُ إِلَى أَخِي الْمَقْتُولِ فَقُرِنَتْ يَدُهُ بِيَدِهِ قَالُوا فَانْطَلَقَا وَالْخَمْسُونَ الَّذِينَ أَقْسَمُوا حَتَّى إِذَا كَانُوا بِنَخْلَةَ أَخَذَتْهُمْ السَّمَاءُ فَدَخَلُوا فِي غَارٍ فِي الْجَبَلِ فَانْهَجَمَ الْغَارُ عَلَى الْخَمْسِينَ الَّذِينَ أَقْسَمُوا فَمَاتُوا جَمِيعًا وَأَفْلَتَ الْقَرِينَانِ وَاتَّبَعَهُمَا حَجَرٌ فَكَسَرَ رِجْلَ أَخِي الْمَقْتُولِ فَعَاشَ حَوْلًا ثُمَّ مَاتَ قُلْتُ وَقَدْ كَانَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَرْوَانَ أَقَادَ رَجُلًا بِالْقَسَامَةِ ثُمَّ نَدِمَ بَعْدَ مَا صَنَعَ فَأَمَرَ بِالْخَمْسِينَ الَّذِينَ أَقْسَمُوا فَمُحُوا مِنْ الدِّيوَانِ وَسَيَّرَهُمْ إِلَى الشَّأْمِ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور اشعث بن قیس نے کہا کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا تم اپنے دو گواہ لاؤ ورنہ اس( مدعیٰ علیہ) کی قسم( پر فیصلہ ہوگا) ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا قسامت میں معاویہ رضی اللہ عنہ نے قصاص نہیں لیا( صرف دیت دلائی) اور عمر بن عبدالعزیز نے عدی بن ارطاۃ کو جنہیں انہوں نے بصرہ کا امیر بنایا تھا ایک مقتول کے بارے میں جو تیل بیچنے والوں کے محلہ کے ایک گھر کے پاس پایاگیا تھا لکھا کہ اگر مقتول کے اولیاءکے پاس کوئی گواہی ہو( تو فیصلہ کیا جاسکتا ہے) ورنہ خلق اللہ پر ظلم نہ کرو کیوں کہ ایسے معاملہ کا جس پر گواہ نہ ہوں قیامت تک فیصلہ نہیں ہوسکتا۔

6899.

حضرت ابو قلابہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ نے ایک دن دربار عام منعقد کیا۔ سب لوگوں کو شامل ہونے کی اجازت دی۔ لوگ آئے تو انہوں نے پوچھا: قسامت کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟ لوگوں نے کہا: قسامت کے ذریعے سے قصاص لیا ہے۔ ابو قلابہ کہتے ہیں کہ انہوں نے مجھ سے کہا: اے قلابہ ! تمہاری کیا رائے ہے؟ مجھے انہوں نے عوام کے سامنے لا کھڑا کیا۔ میں نے کہا: اے امیر المومنین! آپ کے پاس عرب کے بڑے بڑے لوگ اور سردار موجود ہیں آپ ہی بتائیں اگر ان میں سے پچاس آدمی دمشق میں رہنے والے کسی شادی شدہ شخص کے متعلق گواہی دیں کہ اس نے زنا کیا ہے جبکہ ان لوگوں نے اس دیکھا ہی نہیں تو کیا ان کی گواہی پر آپ اس شخص کو سنگسار کر دیں گے؟ امیر المومنین نے فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: آپ ہی بتائیں اگر ان میں سے پچاس آدمی حمص میں رہنے والے کسی شخص گواہی دیں کہ اس نے چوری کی ہے، حالانکہ انہوں نے اسے چوری کرتے ہوئے نہیں دیکھا تو کیا آپ اس کا ہاتھ کاٹ دیں گے؟ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے کہا: نہیں (ایسا تو نہیں ہوسکتا)۔ پھر میں نے کہا: اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ نے کبھی کسی کو  تین حالتوں کے علاوہ قتل نہیں کیا: ایک وہ شخص جس نے کسی دوسرے کو ناحق قتل کیا ہو تو اسے قصاص میں قتل کیا جائے گا۔ دوسرا وہ جس نے شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کیا ہو، تیسرا وہ جس نے اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی اور دین اسلام سے برگشتہ ہوگیا (انہیں قتل کر دیا جائے گا)۔ یہ بات سن کر لوگوں نے کہا: کیا حضرت انس ؓ نے یہ حدیث بیان نہیں کی کہ رسول اللہ ﷺ نے چوری کے معاملے میں ہاتھ پاؤں کاٹ دیے تھے اور مجرموں کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیر کر انہیں دھوپ میں ڈال دیا تھا؟ حضرت ابو قلابہ نے کہا: میں تمہیں حضرت انس ؓ سے مروی حدیث سناتا ہوں: مجھ سے حضرت انس ؓ نے بیان کیا کہ قبیلہ عکل کے آٹھ افراد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے اسلام پر بیعت کی۔ انہیں مدینہ طیبہ کی آب وہوا موافق نہ آئی اور وہ بیمار ہوگئے تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کی شکایت کی۔ آپ نے ان سے فرمایا: کیا تم ہمارے چرواہے کے ساتھ اونٹوں کے باڑے میں نہیں چلے جاتے پھر تم وہاں ان کا دودھ اور پیشاب پیتے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، چنانچہ وہ گئے اور اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیا تو صحت یاب ہوگئے۔ اس کے بعد انہوں نے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹ ہانک کر لے گئے۔ رسول اللہ ﷺ کو اس کی اطلاع پہنچی تو آپ نے ان کی تلاش میں آدمی بھیجے، چنانچہ انہیں گرفتار کر کے آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا گیا۔ آپ نے ان کے ہاتھ، پاؤں کاٹنے کا حکم دیا اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروا دیں، پھر انہیں دھوپ میں پھینک دیا حتی کہ وہ مرگئے۔ میں نے کہا: ان کے عمل سے بڑھ کر اور کیا جرم ہو سکتا ہے؟ وہ اسلام سے پھر گئے، انہوں نے قتل کیا اور چوری کے مرتکب ہوئے۔ حضرت عنبسہ بن سعید نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے آج جیسی بات کبھی نہیں سنی تھی۔ میں نے کہا: اے عنبسہ! کیا تو میری بیان کردہ حدیث مسترد کرتا ہے؟ اس نے کہا: نہیں بلکہ تم نے یہ حدیث حقیقت حال کے مطابق بیان کی ہے۔ اللہ کی قسم! یہ لشکر اس وقت تک خیروعافیت سے رہے گا جب تک یہ شیخ ان میں موجود رہیں گے۔ میں نے کہا: قسامت کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی سنت یہ ہے کہ آپ ﷺ کے پاس انصار کے کچھ لوگ آئے اور آپ سے باتیں کرتے رہے، پھر ان کے سامنے ان کا ایک شخص باہر نکلا اور وہاں قتل کر دیا گیا۔ اس کے بعد دوسرے لوگ باہر نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ان کا ساتھی خون میں تڑپ رہا ہے۔ ان لوگوں نے وآپس آکر رسول اللہ ﷺ کو اس واقعے کی خبر دی اور کہا: ان لوگوں نے واپس آکر رسول! ہمارا ساتھی ابھی ابھی ہمارے ساتھ گفتگو کر رہا تھا۔ وہ ہمارے سامنے ہے۔ رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے اور پوچھا: ”تمہیں کس پر شبہ ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: ہمارے خیال کے مطابق اسے یہودیوں نے قتل کیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ یہودیوں میں پچاس آدمی قسم کھائیں کہ انہوں نے قتل نہیں کیا؟“ انہوں نے کہا: وہ تو یہ بھی پروا نہیں کرتے کہ ہم سب کو قتل کر دیں، پھر قسمیں کھا جائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے پچاس آدمی قسم اٹھائیں اور خون بہا کے مستحق ہو جائیں۔“ انہوں نے کہا: ہم بھی قسم اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اپنی طرف سے اس کی دیت ادا کر دی۔ (ابو قلابہ کہتے ہیں:) میں نے کہا: زمانہ جاہلیت میں قبیلہ ہذیل کے لوگوں نے اپنے ایک آدمی کو قبیلے سے نکال دیا تھا، پھر وہ رات کے وقت وادی بطحاء میں ایک یمنی کے گھر آیا اس دوران میں سے ایک شخص بیدار ہوا اور اس نے تلوار سے وار کر کے قبیلہ ہذیل کے لوگ آئے اور قاتل یمنی کو گرفتار کر کے حج کے موقع پر حضرت عمر ؓ کے ہاں پیش کر دیا اور کہا: اس نے ہمارے آدمی کو قتل کر دیا ہے، یمنی نے کہا: انہوں نے اسے اپنی برادری سے نکال دیا تھا۔ حضرت عمر ﷺ نے فرمایا: اب قبیلہ ہذیل کے پچاس آدمی قسم اٹھائیں کہ اسے انہوں نے نہیں نکالا تھا، چنانچہ ان میں سے انچاس آدمیوں نے قسمیں کھائیں، پھر اس قبیلے کا ایک شخص شام سے آیا تو انہوں نے اس سے بھی قسم دینے کا مطالبہ کیا لیکن اس نے اپنی قسم کے عوض ایک ہزار درہم ادا کر کے قسم سے اپنا پیچھا چھڑا لیا۔ قبیلہ ہذیل کے لوگوں نے اس کی جگہ ایک دوسرے آدمی کو تیار کر لیا، پھر انہوں نے قاتل کو مقتول کے بھائی کے حوالے کر دیا اور اس کا ہاتھ اس کے ہاتھ کے ساتھ باندھ دیا گیا۔ انہوں نے بیان کیا: پھر ہم اور وہ پچاس آدمی جنہوں نے قسم اٹھائی تھی روانہ ہوئے۔ جب مقام نخلہ پر پہنچے تو وہاں انہیں بارش نے آ لیا۔ چنانچہ سب لوگ پہاڑ کی ایک غار میں گھس گئے، غار ان پچاس آدمیوں کے اوپر گر پڑی جنہوں نے قسمیں اٹھائی تھیں اور وہ سب کے سب مر گئے، البتہ جن دو آدمیوں نے ہاتھ باندھے تھے وہ بچ گئے۔ ان کے پیچھے بھی ایک پتھر لڑھک کر گرا اور اس نے مقتول کے بھائی کا ٹخنا توڑ دیا۔ اس کے بعد ایک سال زندہ رہا، پھر مر گیا۔ میں نے کہا: حضرت عبدالملک بن مروان نے ایک آدمی سے قسامت کی بنیاد پر قصاص لیا تھا، پھر انہیں اپنے کیے پر ندامت ہوئی تو انہوں نے ان پچاس آدمیوں کے متعلق جنہوں نے قسم اٹھائی تھی حکم دیا کہ ان کے نام رجسٹر سے کاٹ دیے جائیں، پھر انہیں شام کی طرف جلاوطن کر دیا۔