تشریح:
(1) اس طویل حدیث میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی موجودگی میں ایک مناظرے کی روداد بیان کی گئی ہے جو ابو قلابہ اور حاضرین کے درمیان ہوا۔ ہمیں معلوم نہیں ہو سکا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے قسامہ کے عمل کو کن وجوہات کی بنا پر ترک کر دیا حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اس پر عمل ہوا اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے بھی اسے اختیار کیا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق روایات ملتی ہیں کہ انھوں نے قسامت کی بنیاد پر قصاص لیا تھا جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اس کے مطابق عمل کیا۔ خود حضرت عمر بن عبداعزیز رحمہ اللہ جب مدینہ طیبہ کے گورنر تھے انھوں نے قسامت کی بنیاد پر قصاص لیا تھا۔
(2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ قسامت کے متعلق اختلاف کا حاصل یہ ہے کہ یہ قابل عمل ہے یا نہیں؟ اگر قابل عمل ہے تو کیا اس کی بنیاد پر دیت پڑے گی یا قصاص بھی لیا جا سکتا ہے؟ پھر قسم اٹھانے کا آغاز مدعی حضرات سے ہوگا یا مدعی علیہم سے پہلے قسم لی جائے گی، پھر اس کی شروط میں بھی اختلاف ہے۔ (فتح الباري:289/12)
(3) بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود قسامت کا انکار نہیں جیسا کہ بعض شارحین نے یہ بات کہی ہے، تاہم انھوں نے اس سلسلے میں امام شافعی رحمہ اللہ کی موافقت کی ہے کہ اس کی بنیاد پر قصاص نہیں لیا جائے گا بلکہ صرف دیت لی جا سکتی ہے، البتہ ان کا امام شافعی رحمہ اللہ سے اس امر میں اختلاف ہے کہ قسم مدعی پر نہیں بلکہ مدعیٰ علیہ پر ہے جیسا کہ انھوں نے آغاز میں سعید بن عبید کا حوالہ دیا ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ قسامت سے انکار امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف نہیں ہے۔ واللہ أعلم