باب: امامت کرانے کا سب سے زیادہ حقدار وہ ہے جو علم اور (عملی طور پر بھی) فضیلت والا ہو۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: The religious learned men are entitled to precedence in leading the Salat (prayer))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
691.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ ایام علالت میں تین دن تک باہر تشریف نہ لا سکے۔ پھر ایک دن نماز کے لیے تکبیر ہو چکی تھی اور حضرت ابوبکر ؓ جماعت کے لیے پیش قدمی کرنے کو تھے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے (حجرے کا) پردہ اٹھایا۔ آپ کا رخ زیبا دکھائی دیا۔ یقیناً آپ کے روئے انور سے بڑھ کر حسین و جمیل منظر ہم نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ نبی ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو نماز کے لیے آگے بڑھنے کو کہا اور پردہ گرا دیا۔ اس کے بعد کوئی بھی آپ کو نہ دیکھ سکا حتی کہ آپ داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ (إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ)
تشریح:
بدھ کے دن رسول اللہ ﷺ سیدہ عائشہ ؓ کے گھر تشریف لائے اور بڑے ٹب میں بیٹھ کر پانی کی سات مشکیں سر پر ڈالیں، کچھ سکون ہوا تو مسجد میں آ گئے، نماز پڑھائی اور خطبہ دیا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4449) جمعرات کے دن بیماری نے شدت اختیار کر لی، اسی حالت میں آپ نے فرمایا: ’’لاؤ میں تمھیں کچھ لکھوا دوں تاکہ میرے بعد تم گمراہ نہ ہوجاؤ۔‘‘ اسی روز آپ نے تین وصیتیں فرمائیں۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4431) اسی دن آپ نے نماز مغرب پڑھائی جس میں سورۃ المرسلات کی تلاوت فرمائی۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4429) اسی دن نماز عشاء کے لیے آپ نے تین مرتبہ مسجد میں جانے کا ارادہ فرمایا لیکن غسل کرنے کے بعد جب بھی اٹھنے کا ارادہ فرماتے تو بے ہوش ہو جاتے، بالآخر آپ نے فرمایا: ’’ابوبکر سے کہو وہ نماز پڑھائے۔‘‘ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:687) چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ نے آپ کی زندگی میں سترہ نمازیں پڑھائیں۔ ہفتہ یا اتوار کے دن حضرت عباس اور حضرت علی ؓ کے سہارے مسجد میں تشریف لائے جبکہ ظہر کی نماز کھڑی ہوچکی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر ؓ کے پہلو میں بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ (صحیح البخاري، حدیث:687) اگلے دن صبح کی نماز کے وقت پردہ اٹھایا، اس وقت نماز ہورہی تھی۔ تھوڑی دیر تک اس نظارۂ پاک کو ملاحظہ فرمایا جو آپ کی تعلیم کا نتیجہ تھا۔ اس نظارے سے رخ انور پر بشاشت اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ آخر کار نزع کی حالت شروع ہوئی۔ پانی کا پیالہ آپ کے سرہانے رکھا ہوا تھا۔ آپ اس میں ہاتھ ڈالتے اور چہرۂ مبارک پر پھیر لیتے۔ اس دوران میں زبان مبارک سے فرماتے: ’’اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، موت میں تلخی ہوا ہی کرتی ہے۔‘‘(صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4449) آخر کار بارہ ربیع الاول 11 ہجری بروز پیر بوقت چاشت جسم اطہر سے روح انور نے پرواز کی۔ اس وقت آپ ﷺ کی عمر 63 سال 4 دن تھی۔ خطبے کے متعلق درج ذیل حدیث ہے: حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مرض وفات میں ہماری طرف نکلے، چادر لپیٹے ہوئے اور سر پر کالی پٹی باندھے ہوئے تھے حتی کہ آپ منبر پر تشریف فرما ہوئے، اللہ کی حمد وثنا کی اور انصار کے متعلق خطبہ دیا۔ یہ رسول اللہ ﷺ کی منبر پر آخری مجلس تھی۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث :3628)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
672
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
681
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
681
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
681
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ ایام علالت میں تین دن تک باہر تشریف نہ لا سکے۔ پھر ایک دن نماز کے لیے تکبیر ہو چکی تھی اور حضرت ابوبکر ؓ جماعت کے لیے پیش قدمی کرنے کو تھے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے (حجرے کا) پردہ اٹھایا۔ آپ کا رخ زیبا دکھائی دیا۔ یقیناً آپ کے روئے انور سے بڑھ کر حسین و جمیل منظر ہم نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ نبی ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو نماز کے لیے آگے بڑھنے کو کہا اور پردہ گرا دیا۔ اس کے بعد کوئی بھی آپ کو نہ دیکھ سکا حتی کہ آپ داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ (إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ)
حدیث حاشیہ:
بدھ کے دن رسول اللہ ﷺ سیدہ عائشہ ؓ کے گھر تشریف لائے اور بڑے ٹب میں بیٹھ کر پانی کی سات مشکیں سر پر ڈالیں، کچھ سکون ہوا تو مسجد میں آ گئے، نماز پڑھائی اور خطبہ دیا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4449) جمعرات کے دن بیماری نے شدت اختیار کر لی، اسی حالت میں آپ نے فرمایا: ’’لاؤ میں تمھیں کچھ لکھوا دوں تاکہ میرے بعد تم گمراہ نہ ہوجاؤ۔‘‘ اسی روز آپ نے تین وصیتیں فرمائیں۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4431) اسی دن آپ نے نماز مغرب پڑھائی جس میں سورۃ المرسلات کی تلاوت فرمائی۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4429) اسی دن نماز عشاء کے لیے آپ نے تین مرتبہ مسجد میں جانے کا ارادہ فرمایا لیکن غسل کرنے کے بعد جب بھی اٹھنے کا ارادہ فرماتے تو بے ہوش ہو جاتے، بالآخر آپ نے فرمایا: ’’ابوبکر سے کہو وہ نماز پڑھائے۔‘‘ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:687) چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ نے آپ کی زندگی میں سترہ نمازیں پڑھائیں۔ ہفتہ یا اتوار کے دن حضرت عباس اور حضرت علی ؓ کے سہارے مسجد میں تشریف لائے جبکہ ظہر کی نماز کھڑی ہوچکی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر ؓ کے پہلو میں بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ (صحیح البخاري، حدیث:687) اگلے دن صبح کی نماز کے وقت پردہ اٹھایا، اس وقت نماز ہورہی تھی۔ تھوڑی دیر تک اس نظارۂ پاک کو ملاحظہ فرمایا جو آپ کی تعلیم کا نتیجہ تھا۔ اس نظارے سے رخ انور پر بشاشت اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ آخر کار نزع کی حالت شروع ہوئی۔ پانی کا پیالہ آپ کے سرہانے رکھا ہوا تھا۔ آپ اس میں ہاتھ ڈالتے اور چہرۂ مبارک پر پھیر لیتے۔ اس دوران میں زبان مبارک سے فرماتے: ’’اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، موت میں تلخی ہوا ہی کرتی ہے۔‘‘(صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4449) آخر کار بارہ ربیع الاول 11 ہجری بروز پیر بوقت چاشت جسم اطہر سے روح انور نے پرواز کی۔ اس وقت آپ ﷺ کی عمر 63 سال 4 دن تھی۔ خطبے کے متعلق درج ذیل حدیث ہے: حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مرض وفات میں ہماری طرف نکلے، چادر لپیٹے ہوئے اور سر پر کالی پٹی باندھے ہوئے تھے حتی کہ آپ منبر پر تشریف فرما ہوئے، اللہ کی حمد وثنا کی اور انصار کے متعلق خطبہ دیا۔ یہ رسول اللہ ﷺ کی منبر پر آخری مجلس تھی۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث :3628)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابومعمر عبداللہ بن عمرمنقری نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے انس بن مالک ؓ سے بیان کیا، آپ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ (ایام بیماری میں) تین دن تک باہر تشریف نہیں لائے۔ ان ہی دنوں میں ایک دن نماز قائم کی گئی۔ حضرت ابوبکر ؓ آگے بڑھنے کو تھے کہ نبی ﷺ نے (حجرہ مبارک کا) پردہ اٹھایا۔ جب حضور ﷺ کا چہرہ مبارک دکھائی دیا۔ تو آپ کے روئے پاک و مبارک سے زیادہ حسین منظر ہم نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ (قربان اس حسن و جمال کے) پھر آپ نے حضرت ابوبکرصدیق ؓ کو آگے بڑھنے کے لیے اشارہ کیا اور آپ نے پردہ گرادیا اور اس کے بعد وفات تک کوئی آپ کو دیکھنے پر قادر نہ ہو سکا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): The Prophet (ﷺ) did not come out for three days. The people stood for the prayer and Abu Bakr (RA) went ahead to lead the prayer. (In the meantime) the Prophet (ﷺ) caught hold of the curtain and lifted it. When the face of the Prophet (ﷺ) appeared we had never seen a scene more pleasing than the face of the Prophet (ﷺ) as it appeared then. The Prophet (ﷺ) beckoned to Abu Bakr (RA) to lead the people in the prayer and then let the curtain fall. We did not see him (again) till he died.