تشریح:
(1) اگرچہ اس حدیث میں امام سے پہلے سر اٹھانے والے کے لیے وعید کا بیان ہے، تاہم دوران نماز میں کوئی کام بھی امام سے پہلے سرانجام دینا منع ہے۔ اس بارے میں ایک اور روایت بھی مشہور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص امام سے پہلے سر اٹھاتا ہے یا نیچے رکھتا ہے، اس کی پیشانی شیطان کے قبضے میں ہے۔‘‘ اس کا ذکر حافظ ابن حجرؒ نے بھی فتح الباری (237/2) میں کیا ہے لیکن یہ روایت مرفوعا صحیح نہیں۔ دیکھیے: (المعجم الأوسط: 5/385، حديث: 7692) جمہور کے نزدیک ایسا کرنے والا گناہ گار تو ہوگا، لیکن اس کی نماز ہوجائے گی، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ دانستہ ایسا کرنے والے کی نماز باطل ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ ایسے آدمی کی نماز سرے سے نہیں ہوتی، امام احمد وغیرہ کا بھی یہی موقف ہے کیونکہ نہی فساد کا تقاضا کرتی ہے۔ اگر اس کی نماز درست ہوتی تو اس کے لیے ثواب کی امید رکھی جاتی اور عقاب کا اندیشہ نہ ہوتا۔ (فتح الباري:238/2) علامہ سندھی ؒ فرماتے ہیں کہ ایسے آدمی کی نماز کو درست کہنے والوں پر تعجب ہے۔ یہ حضرات امام سے آگے نماز پڑھنے والے کی نماز کو تو درست نہیں کہتے، لیکن افعال میں آگے بڑھنے والے کی نماز کو درست قرار دیتے ہیں، حالانکہ اقتدا نماز کے افعال ہی میں کرنی ہوتی ہے اس اعتبار سے اگر جگہ میں امام سے آگے بڑھنے والے کی نماز فاسد ہے تو افعال میں آگے بڑھنے والے کی نماز بالاولیٰ فاسد ہونی چاہیے۔ (حاشیة السندي:128/1)
(2) بعض لوگ حدیث میں بیان کردہ وعید کو مجاز پر محمول کرتے ہیں، یعنی ایسے شخص کی بے وقوفی اور کم عقلی کو ان الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے، کیونکہ اس امت میں مسخ جائز نہیں، علاوہ ازیں بکثرت اس حکم کی مخالفت کے باوجود کوئی واقعہ بھی تبدیلئ شکل کے متعلق منقول نہیں ہوا۔ یہ موقف مبنی بر حقیقت نہیں ہے، کیونکہ اس امت میں مسخ کی نفی علی الاطلاق درست نہیں۔ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں: ’’اس امت کے آخری دور میں خسف، مسخ اور قذف واقع ہوگا۔‘‘ رہی یہ بات کہ ایسا کوئی واقعہ رونما کیوں نہیں ہوا؟ تو یہ محض اللہ کا فضل ہے کہ ایسے شخص کو فوری طور پر سزا نہیں دی جاتی، کتنی ہی سزائیں ایسی ہیں کہ بندہ ان کا مستحق بن جاتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اس سے درگزر فرماتا ہے، نیز حدیث سے صرف یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایسا آدمی اس سزا کا مستحق ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے لوگوں کو ڈھیل دے رکھی ہو۔ (عمدة الأحکام :313/4)
(3) حافظ ابن حجر ؒ نے اس بحث کے آخر میں بڑی عمدہ بات لکھی ہے کہ امام سے مسابقت کا سبب بندے کی جلد بازی ہوتی ہے تو ایسے انسان کو سوچنا چاہیے کہ وہ جتنی بھی جلدی کرے آخر سلام تو اس نے امام کے ساتھ ہی پھیرنا ہے۔ (فتح الباري:238/2)