تشریح:
(1) یہ حدیث چار شرعی احکام پر مشتمل ہے: ٭مسواک کی اہمیت وافادیت۔ ٭عہدہ طلب کرنے کی مذمت۔ ٭حضرت ابو موسیٰ اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو حکومتی خدمت کے لیے یمن روانہ کرنا۔ ٭یہودی کا ذکر جس نے مسلمان ہونے کے بعد دوبارہ یہودیت کو اختیار کر لیا۔ اس مقام پر یہ آخری واقعہ بیان کرنا مقصود ہے۔ ایک روایت میں اس کی تفصیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو موسیٰ اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن میں تعلیم وتربیت کے لیے روانہ کیا تھا۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے ملنے گئے تو وہاں ایک آدمی کو زنجیروں میں جکڑا ہوا پایا۔ انھوں نے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے کہا: اے بھائی! کیا تم لوگوں کو ایذا رسانی کے لیے بھیجے گئے ہو؟ ہمیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے بھیجا تھا کہ ہم لوگوں کو دین کی تعلیم دیں اور ایسی باتوں کی رہنمائی کریں جو ان کے لیے نفع بخش ہوں۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ یہ مسلمان ہو کر دین سے پھر (مرتد ہو) گیا ہے۔ چنانچہ یہ وضاحت سن کر حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے اس ذات کی قسم جس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر بھیجا ہے! میں اس وقت تک نہیں بیٹھوں گا جب تک اسے آگ میں جلانہ دوں، چنانچہ وہاں لکڑیاں جلا کر آگ کا الاؤ تیار کیا گیا اور اس کی مشکیں باندھ کر اس میں ڈال دیا گیا۔ (مجمع الذوائد للهیثمي:261/6)
(2) ممکن ہے کہ اسے قتل کر کے مزید رسوا کرنے کے لیے اس کی لاش کو آگ میں ڈال دیا گیا ہو اور حضرت معاذ اور ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ ایسے حالات میں جلانا جائز سمجھتے ہوں۔ بہرحال حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اسے بیس دن تک سمجھایا۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے بھی اسے دین اسلام کی دعوت دی لیکن اس نے انکار کیا تو اسے کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا۔
(3) اس سے معلوم ہوا کہ مرتد مرد اور عورت کو دعوت اسلام دینے کے بعد قتل کرنا چاہیے، اگر دین اسلام میں واپس آجائے تو اسے مزید موقع دیا جائے۔ (فتح الباري:343/12، 344) واللہ أعلم