تشریح:
(1) جو شخص فرائض، مثلاً: زکاۃ وغیرہ دینے سے انکار کرتا ہے، اس کے متعلق تحقیق کی جائے، اگر وہ وجوب کا قائل ہے لیکن دینے سے انکار کرتا ہے تو اس سے جبراً زکاۃ وصول کی جائے اور اس جنگ نہ کی جائے اور اگر انکار کرنے کے ساتھ ساتھ لڑائی کرنے پر آمادہ ہے تو پھر ایسے شخص کو معاف نہ کیا جائے بلکہ ایسے شخص سے قتال کیا جائے۔
(2) دراصل حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مرتدین کی تین قسمیں حسب ذیل تھیں: ٭ایک وہ لوگ تھے جو بتوں کی پوجا پاٹ میں لگ گئے اور اسلام کو خیر باد کہہ دیا۔٭ایک وہ گروہ تھا جنھوں نے مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کی پیروی اختیار کرلی۔ ٭ ایسی جماعت بھی تھی جو اسلام کا اقرار کرتے تھے لیکن زکاۃ کی ادائیگی سے انکار کر دیا اور انھوں نے خیال کیا کہ زکاۃ کی ادائیگی صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے خاص تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس آخری قسم کے متعلق بحث کی کہ ان سے لڑائی جائز نہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے زکاۃ نہ دینے والوں سے اس لیے جنگ کرنے کا ارادہ کیا کہ انھوں نے بزور شمشیر زکاۃ روکی تھی اور مسلمانوں کے خلاف محاذ جنگ کھول دیا تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا موقف تھا کہ نماز اور زکاۃ کا معاملہ ایک ہے۔ اگر کوئی دانستہ نماز تارک ہے تو اس سے جنگ کی جائے گی اسی طرح اگر کوئی زکاۃ نہ دے تو اس سے جبراً وصول کی جائے گی۔ اگر وہ اس کے لیے جنگ کرے تو اس سے جنگ کی جائے گی۔ آخر کار حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی قائم کردہ دلیل سے حق کو پہچان لیا اور پوری طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے موقف سے متفق ہو گئے۔ (فتح الباري:347/12)