تشریح:
(1) ایک رویت میں ہے کہ دو بڑی جماعتوں کے درمیان جنگ عظیم ہوگی۔ (صحیح البخاري، الفتن، حدیث:7121) ان دونوں بڑی جماعتوں سے مراد حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کی جماعت ہے اور جنگ عظیم سے مراد جنگ صفین ہے۔ ان دونوں کا دعویٰ ایک، یعنی اسلام تھا۔ ان میں ہر گروہ یقین رکھتا تھا کہ وہ حق پر ہے۔
(2) طبری کی روایت میں ہے کہ جب باغی گروہ، یعنی خوارج کا ظہور ہو گا تو ان دونوں جماعتوں میں سے جو حق کے زیادہ قریب ہوگی باغی لوگوں کو قتل کرے گی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی مناسبت سے مذکورہ عنوان اور پیش کردہ حدیث ذکر کی ہے۔ (فتح الباري:378/12) اس میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی تنقیص کا کوئی پہلو ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اس کا دعویٰ اجتہاد پر مبنی تھا۔ مجتہد اگر خطا کار بھی ہوتو اسے ایک اجر ضرور ملتا ہے۔
(3) بہرحال خوارج کے بارے میں نرم گوشہ نہیں رکھنا چاہیے۔ انھوں نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو کافر کہا، حالانکہ اس مقدس گروہ کو کافر کہنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرنا ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے جنتی ہونے کی گواہی دی ہے۔ واللہ أعلم