تشریح:
1۔ تدبیر یہ ہے کہ مالک اپنے غلام سے کہہ دے "میرے مرنے کے بعد تو آزاد ہے" اس طرح کے غلام کو مدبر کہتے ہیں۔ اس حدیث کے مطابق جس شخص نے اپنے غلام کو مدبر کیا تھا اس کے پاس غلام کے علاوہ اور کوئی چیز نہ تھی۔ چونکہ اس کے پاس ذاتی اخراجات پورے کرنے کے لیے کوئی چیز نہ تھی اور غلام کو مدبرکرنا اس کی بے وقوفی تھی، نیز اس آدمی کے ورثاء بھی اس پر ناراض ہو سکتے تھے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بے وقوفی اور ورثاء کی ناراضی کی وجہ سے غلام کے مدبر کرنے کو ناجائز ٹھہرایا اور اسے فروخت کر دیا۔ اس بنا پر اس شخص کی خریدوفروخت اور ہبہ کیونکر صحیح ہو سکتا ہے جس کا مالک اسے فروخت کرنا یا ہبہ کرنا نہ چاہتا ہو بلکہ اس پر جبر کر کے فروخت کیا جائے یا کسی دوسرے کو ہبہ کر دیا جائے۔
2۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ابن بطال کے حوالے سے لکھا ہے کہ جس شخص نے اپنے غلام کو مدبر کیا تھا جبکہ اس کا کوئی اور مال نہ تھا گویا اس نے کم عقلی کی وجہ سے اپنے غلام کو مدبر کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مدبر کرنے کو مسترد کر دیا اگرچہ وہ اس کا مالک تھا، تو جس شخص نے فاسد بیع سے غلام خریدا اور اس کی ملک بھی صحیح نہ تھی جب وہ اس ذخرید کردہ غلام کو مدبر کر دے یا آزاد کر دے تو اس کی تدبیر اور آزاد کرنا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے جبکہ اس کی ملک ہی صحیح نہیں ہے۔ (فتح الباري: 400/12)