تشریح:
(1) جب حضرت عثمان ؓ محصور تھے تو ان کی عدم موجودگی میں حضرت ابو امامہ سہل بن حنیف، حضرت ابو ایوب انصاری اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہم نے کچھ نمازیں پڑھائیں۔ حضرت علی ؓ نے عیدالاضحیٰ پڑھانے کا فریضہ سرانجام دیا، لیکن امام فتنہ سے مراد کنانہ بن بشر ہے۔ اگرچہ بعض حضرات نے عبدالرحمٰن بن عدیس بھی لکھا ہے جو مصری باغیوں کا سرغنہ تھا لیکن یہ صحیح نہیں۔ امام بخاری ؓ کے نزدیک فتنہ پرور کے پیچھے نماز پڑھنا صحیح ہے، کیونکہ مذکورہ روایت کے مطابق حضرت عثمان ؓ نے امام فتنہ کے پیچھے نماز ادا کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ اہل مدینہ مسجد نبوی میں محاصرین کے پیچھے نماز پڑھنے کو ناپسند فرماتے تھے، لیکن حضرت عثمان غنی ؓ کا موقف تھا کہ جو بھی تمھیں نماز کی دعوت دے تم اس پر لبیک کہو۔ اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فتنے کے زمانے میں خصوصیت کے ساتھ نماز باجماعت کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ جماعت مزید انتشار کا شکار نہ ہو۔ اور تعطیل جماعت سے بہتر ہے کہ کسی ناپسندیدہ انسان کے پیچھے نماز پڑھ لی جائے۔ (فتح الباري:245/2) حضرت امام مالک ؒ زمانۂ فتنہ میں نمازوں کے متعلق بہت سخت موقف رکھتے تھے اور ایسے حالات میں آپ تمام نمازیں اپنے گھر میں پڑھ لینے کے قائل تھے۔ حضرت امام بخاری ؒ نے یہ عنوان قائم کرکے اس کا جواز ثابت کیا ہے اور جمہور کی تائید فرمائی ہے۔
(2) مخنث دوطرح کے ہوتے ہیں:٭پیدائشی: جن میں عورتوں جیسی ناز و ادائیں ہوں۔ اس صورت میں کوئی ملامت نہیں۔ ٭بناوٹی: جوجان بوجھ کر تکلف کے ساتھ عورتوں جیسی حرکات کرتے ہیں۔ یہ لوگ قابل ملامت ہیں۔ بوقت ضرورت ان کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ نماز نہ پڑھنے سے فتنے کا اندیشہ ہو۔ عام اختیاری حالات میں ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔ (فتح الباري:246/2)