تشریح:
1۔اس حدیث کے آخر میں ہے کہ اگر اس نے سچ کہا ہے تو وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگروہ احکام وفرائض میں کوتاہی نہیں کرے گا اور حیلوں بہانوں کے ذریعے سے فرائض واحکام میں کمی کا مرتکب نہیں ہوگا تو کامیابی کا حقدار ہوگا، اس لیے انسان کو احکام کی بجاآوری میں حیلے بہانے نہیں کرنے چاہئیں۔
2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی نے اسقاط زکاۃ کے لیے حیلہ سازی یا بہانہ گری سے کام لیا تو قیامت کے دن اس سے باز پرس ہوگی کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے فرائض سے حیلہ سازی کے ذریعے سے بچنے کی کوشش کر کے کھلی بغاوت کا ارتکاب کیا ہے۔
3۔واضح رہے کہ حقہ اس اُونٹنی کو کہتے ہیں جو تین سال مکمل کر کے چوتھے سال میں قدم رکھ چکی ہو اور وہ بچہ جننے کے قابل ہو۔ اگر کسی کے پاس ایک سو بیس اونٹ ہوں تو ان میں ایسی دو اونٹنیاں بطور زکاۃ واجب ہیں۔ (صحیح البخاري، الزکاة۔ حدیث: 1454) اگر کوئی مالد دارآدمی سال پورا ہونے سے ایک دو روز پہلے جان بوجھ کر ان اونٹوں میں سے دو اونٹ ذبح کر ڈالے یا کچھ اونٹ کسی کو ہبہ کر دے یا کوئی حیلہ کر کے زکاۃ سے بچنے کی کوشش کرے تو ایسا انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل گرفت ہوگا۔ لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر سال پورا ہونے سے پہلے نصاب زکاۃ میں کمی کر دے تو اس میں کوئی گناہ نہیں کیونکہ سال پورا ہونے سے پہلے وہ اپنے مال میں جیسے چاہے تصرف کر سکتا ہے جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے: اگر کسی کے پاس دو سو درہم ہیں تو اس میں اسقاط زکاۃ کا حیلہ یہ ہے کہ سال پورا ہونے سے پہلے ایک درہم صدقہ کر دے یا اپنے کسی چھوٹے بیٹے کو ہبہ کر دے تا کہ سال پورا ہوتے وقت اس کا نصاب ناقص ہو جائے تو اس صورت میں اس پر زکاۃ واجب نہیں ہوگی۔ (فتاویٰ عالمگیری: 391/6) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے آخر میں ایسے لوگوں کا محاسبہ کیا ہے جو حیلہ سازی سے زکاۃ کی ادائیگی میں راہ فرار اختیار کرتے ہیں۔
4۔حافظ ا بن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھا ہے : ’’جوشخص اللہ پر ایمان اور آخرت پر یقین رکھتا ہے اس کے لیے حلال نہیں کہ وہ صدقہ روکے یا اپنی چیز ملکیت سے نکال دے تاکہ اس کا نصاب کم ہو جائے اور زکاۃ سے بچ جائے اور نہ صدقے سے بچنے کے لیے کوئی دوسرا حیلہ ہی کرے۔‘‘ (فتح الباری: 414/12)