Sahi-Bukhari:
Blood Money (Ad-Diyat)
(Chapter: Tooth for tooth)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6956.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت نضر ؓ کی بیٹی نے ایک لڑکی کو طمانچہ مارا اور اس کے دانت توڑ دیے، وہ نبی ﷺ کے پاس مقدمہ لائے تو آپ نے قصاص کا حکم دیا۔
تشریح:
(1) ایک دوسرے مقام پر امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کو تفصیل سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: حضرت انس رضی اللہ عنہ کی پھوپھی ربیع بنت نضر نے ایک انصاری لڑکی کے دانت توڑ دیے۔ ربیع کے رشتے داروں نے اس سے معافی مانگی تو انھوں نے انکار کر دیا، پھر انھوں نے دیت دینے کی پیش کش کی تو انھوں نے اسے بھی رد کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر قصاص کا مطالبہ کیا اور قصاص کے علاوہ کوئی بھی چیز لینے سے انکار کر دیا، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کا فیصلہ فرما دیا۔ یہ سن کر اس کے بھائی انس رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا میری بہن ربیع کا دانت توڑ دیا جائے گا؟ ہرگز نہیں، مجھے اس ذات کی قسم ہے جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے، اس کا دانت نہیں توڑا جائے گا، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے انس! اللہ کا حکم تو قصاص ہی کا تقاضا کرتا ہے۔‘‘ اتنے میں وہ لوگ دیت لینے پر رضامند ہو گئے اور انھوں نے معافی دے دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ اللہ کی قسم کھا لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم پوری کر دیتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4500) (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کا حکم تو قصاص ہی کا تقاضا کرتا ہے۔‘‘ اس سے آپ نے درج ذیل آیات کی طرف اشارہ فرمایا: ’’زخموں میں بھی قصاص ہے۔‘‘(المائدة:5: 45) ’’سزا دو تم جس قدر تمھیں سزا دی گئی ہو۔‘‘(النحل16: 126) بلکہ قرآن میں واضح نص ہے کہ دانت کے بدلے دانت ہے۔ (3) حضرت انس رضی اللہ عنہ نے قصاص کا فیصلہ سن کر جو کچھ کہا وہ اس فیصلے کو رد کرنے کے لیے نہیں کہا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور یقین کے پیش نظر اس کے وقوع کی نفی کی، چنانچہ ان کی خواہش کے مطابق کام ہوا۔ (فتح الباري:280/12) واضح رہے کہ حدیث میں توڑنے سے مراد اکھاڑنا نہیں، چنانچہ امام ابوداودر حمہ اللہ کہتے ہیں کہ امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: دانت میں قصاص کیسے لیا جائے؟ تو انھوں نے فرمایا: اتنی مقدار میں ریتی سے رگڑ دیا جائے۔ (سنن أبي داود، الدیات، حدیث:4595)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6647
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6894
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6894
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6894
تمہید کتاب
لفظ ديات، دية كی جمع ہے۔اس سے مراد" خون بہا"ہے۔ لغوی اعتبار سے یہ مصدر ہے جس کے معنی خون بہا دینا آتے ہیں۔ شرعی اعتبار سے ایسا مال جو کسی جرم کی وجہ سے انسان پر واجب ہو" دیت" کہلاتا ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ابنی اسرائیل میں صرف قصاص فرض تھا،ان کے ہاں دیت نہ تھی۔اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے فرمایا: (كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ) مقتولین کے بارے میں تم پر قصاص فرض کردیا گیا ہے۔"(البقرہ2: 178)نیز فرمایا: (فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ)"جس کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کوئی چیز معاف کردی جائے۔"(البقرہ2: 178)اس مقام پر عفو سے مراد قتل عمدہ میں دیت قبول کرنا ہے۔(صحیح البخاری، التفسیر، حدیث:4498)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس کسی کا کوئی آدمی مارا جائے تو اسے دو اختیار ہیں:یا تو وہ دیت وصول کرے یا قاتل کو مقتول کے بدلے میں قتل کردیا جائے۔"یعنی قصاص اور دیت واجب ہے لیکن ان دونوں میں اختیار ہے۔(صحیح البخاری، اللقطۃ،حدیث:2434) دیت کے وجوب میں بنیادی شرط یہ ہے کہ قتل ناحق ہو،یعنی مقتول کو کسی شرعی وجہ سے قتل نہ کیا گیا ہو بلکہ بلا وجہ اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہو۔حربی کافر،حد یا قصاص کی بنا پر قتل کرنے سے دیت ساقط ہوجاتی ہے۔وجوب دیت کے چند اسباب ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اس سے مراد کسی کو جان سے مارنا ہے۔اس کی تین قسمیں ہیں:٭قتل عمد: غیر مستحقِ قتل کو مار دینے کی نیت سے ایسے آلے کے ذریعے سے مارنا جس سے عام طور پر آدمی مرجاتا ہو،مثلاً: بندوق، تلوار یا تیر وغیرہ سے قتل کرنا۔٭قتل شبہ عمد:کسی آدمی کو ایسی چیز سے مارنا جس سے عموماً انسان مرتا نہیں،مثلاً:چھڑی یا کنکری سے کسی کو ماردیا جائے۔اس میں قصاص نہیں بلکہ دیت ہے۔٭قتل خطا:کسی کو غلطی سے مارنا۔ اس کی کئی صورتیں ہیں،مثلاً:٭گولی تو شکار کی طرف چلائے لیکن کسی انسان کو لگ جائے اور وہ اس سے مرجائے۔٭کسی نے اپنی ضرورت کے لیے کنواں کھودا لیکن کوئی اس میں گر کر مرجائے۔٭کسی ہنگامے میں کسی مسلمان کو کافر سمجھ کر مارے جیسا کہ غزوۂ احد میں حضرت یمان رضی اللہ عنہ قتل ہوئے تھے۔٭ٹریفک کے حادثے میں کسی گاڑی کے نیچے آکر یا اس کی ضرب سے مرجائے۔قتل خطا میں قرآن کریم کی تصریح کے مطابق دیت اور کفارہ دونوں واجب ہیں۔کسی کو جان سے مار دینا،اس میں دیت کی مقدار سو اونٹ یا ان کی قیمت کے برابر رقم ہے جو قاتل کے وارث مقتول کے ورثاء کو ادا کریں گے،چنانچہ حدیث میں ہے: "کسی بھی جان کے قتل میں سواونٹ دیت ہے۔"(سنن الدارمی:2/188) ایک روایت میں ہے کہ جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار دیت ہے۔حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے دیت یوں مقرر کی تھی:جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار، جن کے پاس چاندی ہے ان پر بارہ ہزار درہم اور جن کے پاس حُلّے( ریشمی لباس) ہیں ان پر دوسوحلوں کی ادائیگی ہے۔(سنن ابی داود، الدیات، حدیث:4542)بہرحال دیت میں اصل اونٹ ہیں،ان کے علاوہ جو کچھ بھی دیا جائے وہ اونٹوں کی قیمت کے مطابق دیا جائے۔دیت کا دوسرا سبب قتل کے علاوہ کسی پر زیادتی کرنا ہے،اس کی تین قسمیں ہیں:٭اعضاء کو ضائع کرنا،یعنی کسی کو ہاتھ پاؤں یا کسی اور عضو سے محروم کردیا۔٭اعضاء کی کارکردگی سے محروم کرنا،یعنی کسی قوت گویائی، قوت سماعت یا قوت سوچ وبچار سے محروم کرنا۔٭کسی کو زخمی کرنا، یعنی سر،چہرے یا جسم کے کسی دوسرے حصے کو زخمی کرنا۔ان کے متعلق دیت کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے۔بہرحال امام بخاری رحمہ الہ نے اس عنوان کے تحت قتل،قصاص اور دیت کے چیدہ چیدہ مسائل بیان کیے ہیں جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔اس عنوان کے تحت چَوَن(54)کے قریب مرفوع احادیث بیان کی گئی ہیں جن میں سات(7)معلق اور باقی موصول ہیں۔ان میں چالیس (40)مکرر اور(14)چودہ خالص ہیں۔چند احادیث کے علاوہ باقی احادیث امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کی ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے اٹھائیس(28)آثار بھی مروی ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث وآثار پر بتیس(32)چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے متعدد مسائل واحکام اخذ کیے ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان میں دیگر مسائل کے علاوہ قتل ناحق کی سنگینی کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس قسم کے قتل میں ابدی طور پر جہنم مین رہنے کی وعید ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری بیان کردہ معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت اجتہاد کا ادراک ہو۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قیامت کے دن محدثین کرام رحمہ اللہ کے پاکیزہ گروہ میں سے اٹھائے۔ آمین
تمہید باب
دانت کے بدلے دانت کی دو صورتیں ہیں:٭دانت اکھاڑ دیا گیا ہوتو بدلے میں اکھاڑ دیا جائے گا۔٭دانت توڑ دیا گیا ہو تو قصاص میں تو ڑ دیا جائے گا۔دانت توڑنے کی صورت میں ٹوٹے ہوئے دانت کی مقدار کا معلوم ہونا اور قصاص میں اتنی ہی مقدار کے توڑنے کا امکان ہونا شرط ہے۔جس ہڈی کے توڑنے میں ہلاکت کا خطرہ ہو،مثلاً: سر کی ہڈی تو وہاں قصاص نہیں بلکہ دیت ادا کرکے بدلہ چکایا جائے گا۔واضح رہے کہ ہر دانت میں پانچ اونٹ دیت ہے۔واللہ اعلم
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت نضر ؓ کی بیٹی نے ایک لڑکی کو طمانچہ مارا اور اس کے دانت توڑ دیے، وہ نبی ﷺ کے پاس مقدمہ لائے تو آپ نے قصاص کا حکم دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک دوسرے مقام پر امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کو تفصیل سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: حضرت انس رضی اللہ عنہ کی پھوپھی ربیع بنت نضر نے ایک انصاری لڑکی کے دانت توڑ دیے۔ ربیع کے رشتے داروں نے اس سے معافی مانگی تو انھوں نے انکار کر دیا، پھر انھوں نے دیت دینے کی پیش کش کی تو انھوں نے اسے بھی رد کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر قصاص کا مطالبہ کیا اور قصاص کے علاوہ کوئی بھی چیز لینے سے انکار کر دیا، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کا فیصلہ فرما دیا۔ یہ سن کر اس کے بھائی انس رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا میری بہن ربیع کا دانت توڑ دیا جائے گا؟ ہرگز نہیں، مجھے اس ذات کی قسم ہے جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے، اس کا دانت نہیں توڑا جائے گا، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے انس! اللہ کا حکم تو قصاص ہی کا تقاضا کرتا ہے۔‘‘ اتنے میں وہ لوگ دیت لینے پر رضامند ہو گئے اور انھوں نے معافی دے دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ اللہ کی قسم کھا لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم پوری کر دیتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4500) (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کا حکم تو قصاص ہی کا تقاضا کرتا ہے۔‘‘ اس سے آپ نے درج ذیل آیات کی طرف اشارہ فرمایا: ’’زخموں میں بھی قصاص ہے۔‘‘(المائدة:5: 45) ’’سزا دو تم جس قدر تمھیں سزا دی گئی ہو۔‘‘(النحل16: 126) بلکہ قرآن میں واضح نص ہے کہ دانت کے بدلے دانت ہے۔ (3) حضرت انس رضی اللہ عنہ نے قصاص کا فیصلہ سن کر جو کچھ کہا وہ اس فیصلے کو رد کرنے کے لیے نہیں کہا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور یقین کے پیش نظر اس کے وقوع کی نفی کی، چنانچہ ان کی خواہش کے مطابق کام ہوا۔ (فتح الباري:280/12) واضح رہے کہ حدیث میں توڑنے سے مراد اکھاڑنا نہیں، چنانچہ امام ابوداودر حمہ اللہ کہتے ہیں کہ امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: دانت میں قصاص کیسے لیا جائے؟ تو انھوں نے فرمایا: اتنی مقدار میں ریتی سے رگڑ دیا جائے۔ (سنن أبي داود، الدیات، حدیث:4595)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا، کہا ہم سے حمید طویل نے بیان کیا، ان سے انس ؓ نے کہ حضرت نضر کی بیٹی نے ایک لڑکی کو طمانچہ مارا تھا اور اس کے دانت ٹوٹ گئے تھے۔ لوگ نبی کریم ﷺ کے پاس مقدمہ لائے تو آنحضرت ﷺ نے قصاص کا حکم دیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA) : The daughter of An-Nadr slapped a girl and broke her incisor tooth. They (the relatives of that girl), came to the Prophet (ﷺ) and he gave the order of Qisas (equality in punishment).