تشریح:
1۔اس حدیث میں زکاۃ نہ دینے کی سزا بیان کی گئی ہے۔ یہ سزا اس شخص کے لیے بھی ہے جو کوئی حیلہ نکال کر زکاۃ کو اپنے ذمے سے ساقط کر دے۔ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: اگر کوئی شخص حرام سے بچنے یا حلال تک پہنچنے کے لیے حیلہ کرتا ہے تو ایسا حیلہ کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر کسی کا حق باطل کرنے کے لیے یا کسی باطل کو ثابت کرنے کے لیے حیلہ کرتا ہے تو ایسا کرنا مکروہ ہے اور ان کے نزدیک مکروہ حرام کے قریب ہے۔ (فتح الباري: 415/12) اس کے باوجود یہ حضرات زکاۃ سے بچنے کے لیے لوگوں کو مختلف حیلوں کی تلقین کرتے ہیں۔
2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان حضرات کے اقوال میں تناقض ثابت کیا ہے کہ ایک طرف تو یہ حضرات سال گزرنے سے پہلے زکاۃ ادا کرنے کے جواز کے قائل ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زکاۃ کے وجوب کے لیے سال کا پوراہونا ضروری نہیں، پھر سال پورا ہونے سے پہلے حیلہ اسقاط زکاۃ کے جواز سے معلوم ہوتا ہے کہ زکاۃ کے لیے سال کا پورا ہونا لازمی ہے پھر ان حضرات کی طرف سے جواب دیا جاتا ہے کہ اگر کسی نے سال کے بعد قرض واپس کرنا ہے تو وہ سال گزرنے سے پہلے قرض ادا کر دے تو فرض ادا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح زکاۃ بھی سال سے پہلے ادا کی جا سکتی ہے لیکن یہ قیاس صحیح نہیں کیونکہ قرض لینے والا اگر معاف کر دے تو ایسا ممکن ہے لیکن زکاۃ لینے والے کو زکاۃ معاف کر دینے کا اختیار نہیں ہے۔ بہرحال حیلوں بہانوں سے زکاۃ ساقط نہیں ہوگی۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو قیامت کےدن اس سے باز پرس ہوگی۔ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے وہ سزا بھی دے جو حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ واللہ أعلم۔