تشریح:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شفعے کے سلسلے میں حیلے سازوں کے اقوال میں تناقض ثابت کرنے کے لیے چار صورتیں ذکر کی ہیں جن میں پہلی صورت یہاں بیان کی ہے فرماتے ہیں کہ انھوں نے پہلے پڑوس کا حق شفعہ ثابت کیا پھر خودہی اس حق کو برباد کرنے کا حیلہ بتایا کہ خریدار بیچنے والے سے اس گھر کے سو حصوں میں سے صرف ایک مشترک حصہ خرید لے جس کی بنا پر وہ خریدے ہوئے گھر میں بیچنے والے کا شریک ہو جائے گا۔ اب پڑوسی اس ایک حصے کو معمولی اور حقیر خیال کر کے شفعہ نہیں کرے گا پھر چونکہ خریدار اس گھر میں شریک بن چکا ہے اور شریک کا حق پڑوسی کے حق سے مقدم ہوتا ہے اس لیے اب وہ گھر کے باقی ننانوے حصے بھی خرید لے اب پڑوسی کے لیے ان باقی حصوں میں حق شفعہ نہیں رہے گا۔ اس انداز سے حیلہ سازوں نے پڑوسی کا حق شفعہ ثابت کرنے کے بعد اسے باطل کر دیا کہ نہ تو وہ پہلے میں شفعہ کر سکتا ہے کیونکہ وہ تو انتہائی تھوڑا ہے اور نہ باقی حصوں میں شفعہ کر سکے گا کیونکہ شریک کا حق اس سے مقدم ہے۔ اسی تناقص کو ثابت کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث پیش کی ہے۔
2۔شریعت نے پڑوسی کو شفعے کا حق اس لیے دیا ہے تاکہ وہ آنے والے مکین کی اذیت رسانی سے محفوظ رہے کیونکہ فروخت کرنے والے نے تو گھر بیچ کر چلے جانا ہے اب فروخت کرنے والے نے یہ حیلہ کر کے اپنے پڑوسی کو نقصان پہنچایا ہے ہمیں ایسے لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو ایسے حیلے جائز قرار دیتے ہیں جنھیں عمل میں لانے سے ایک مسلمان اپنے حق سے محروم ہو جاتا ہے۔
3۔ہمارے رجحان کے مطابق کسی کا حق مارنے کے لیے حیلہ کرنا حرام اور ناجائز ہے جس کی تفصیل ہم پہلے بیان آئے ہیں۔
4۔ واضح رہے کہ ہمارے نزدیک صرف ہمسائیگی سے حق شفعہ ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے مشترک راستہ ہونا ضروری ہے جیسا کہ ایک حدیث میں اس کی وضاحت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ ’’ہمسایہ اپنے ہمسائے کا شفعے میں زیادہ حق دار ہے۔ شفعےکی وجہ سے اس کا انتظار کیا جائے گا اگرچہ غائب ہو بشرطیکہ دونوں کا راستہ ایک ہو۔‘‘ (سنن أبي داود، البیوع، حدیث3518) اس موقف کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے کہ جب حد بندی ہو جائے اور راستے جدا جدا ہو جائیں تو پھر شفعے کا حق ختم ہو جاتا ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث سے اسی موقف کی طرف اشارہ کیا ہے۔ واللہ أعلم۔