تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے قائم کردہ عنوان میں کوئی واضح فیصلہ نہیں کیا کہ امام کو امامت کی نیت کرنی چاہیے یا نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ روایت میں اس بات کی صراحت نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے امامت کی نیت نہیں کی تھی اور نہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آپ نے آغاز نماز یا حضرت ابن عباس ؓ کے کھڑے ہونے کے بعد امامت کی نیت کی ہو۔ البتہ سیدنا ابن عباس ؓ کو مقتدی کے مقام پر کھڑا کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ان کے کھڑے ہونے کے بعد امامت کی نیت ضرور کی ہوگی۔
(2) اس مسئلے میں اختلاف ہے، جمہور کا موقف ہے کہ اگر کوئی شخص اکیلا نماز پڑھ رہا ہو اور اس نے امامت کی نیت نہ کی ہو اور کچھ لوگ ازخود اس کی اقتدا میں نماز ادا کرنے لگیں تو ان کی نماز صحیح ہے۔ حنابلہ کے نزدیک فرض نماز میں امامت کی نیت شرط ہے، البتہ نوافل میں گنجائش ہے کہ امامت کی نیت نہ کی جائے تو بھی نماز صحیح ہوگی، لیکن فرض اور نفل میں فرق کرنے سے متعلق حنابلہ کا موقف محل نظر ہے، کیونکہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دیکھا کہ ایک شخص اکیلا نماز پڑھ رہا ہے تو آپ نے فرمایا: ’’کوئی آدمی ایسا ہے جو اس پر صدقہ کرتے ہوئے اس کے ساتھ نماز پڑھنا شروع کردے۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:574) اس حدیث سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اکیلا نماز پڑھنے والا فرض ادا کررہا تھا تو اس کے ساتھ کھڑے ہونے کی صورت میں اس نماز نے باجماعت کی صورت اختیار کرلی، لہٰذا حنابلہ کا فرض نوافل میں فرق کرنا صحیح نہیں۔ امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں کوئی شرط بیان نہیں کی۔ گویا انھوں نے جمہور کی تائید کی ہے۔ (فتح الباري:249/2) والله أعلم۔