تشریح:
(1) اگر کسی کو امام کی طویل قراءت سے تکلیف ہو تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ امام کی اقتدا چھوڑ کر اکیلا نماز پڑھ لے کیونکہ حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے امام کی اقتدا ختم کرنے والے کو ملامت نہیں کی بلکہ امام کو تنبیہ فرمائی ہے، لیکن امام بخاری ؒ اس حدیث سے ایک فقہی مسئلہ ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ یہ کہ ایک شخص امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہے اگر اس نے اقتدا چھوڑ دی تو کیا اس پر بنا کر کے نماز پڑھے یا مکمل نماز کا اعادہ کرے۔ امام شافعی ؒ کے نزدیک جہاں سے امام کی اقتدا چھوڑی ہے وہیں سے بنا کرسکتا ہے، مکمل نماز دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں جبکہ جمہور کے نزدیک اس صورت میں بنا نہیں کرسکتا بلکہ پوری نماز دوبارہ پڑھے گا۔ امام بخاری ؒ کا میلان جمہور کی طرف ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت ہے کہ اس نے سلام پھیر کر نماز ختم کردی، پھر ایک گوشے میں اکیلے نے نماز پڑھی۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1040 (465))
(2) سورۂ حجرات سے آخر قرآن تک تمام سورتیں مفصل کہلاتی ہیں، پھر ﴿عَمَّ يَتَسَاءَلُونَ ﴿١﴾) تک طوال، ﴿وَالضُّحَىٰ ﴿١﴾) تک اوساط اور (الناس) تک قصار کے نام سے پہچانی جاتی ہیں۔ عام طور پر سورۂ بروج تک طوال ﴿لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا﴾ تک اوساط اور (الناس) تک قصار کا نام دیا جاتا ہے۔ راوئ حدیث حضرت عمرو بن دینار نے کہا کہ میں وہ دو سورتیں بھول گیا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھنے کی تلقین فرمائی تھی لیکن یہ اس وقت کی بات ہے جب انھوں نے اپنے شاگرد حضرت شعبہ کو حدیث بیان کی، اس کے برعکس جب سلیمان بن حیان سے حدیث بیان کی تو وضاحت سے کہا کہ وہ دو سورتیں﴿وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا ﴿١﴾ اور ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ﴿١﴾ تھیں۔ بعض روایات میں ان کے ساتھ ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ ﴿١﴾ اور ﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴿١﴾ کا ذکر بھی ہے۔ (فتح الباري:253/2)
(3) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی شرعی سبب کی وجہ سے ایک نماز کو ایک ہی دن میں دومرتبہ پڑھا جاسکتا ہے، البتہ بطور فرض ایک نماز کو دو دفعہ پڑھنا صحیح نہیں۔ کیونکہ حدیث میں اس کی ممانعت ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ایک نماز کو ایک ہی دن میں دو مرتبہ مت پڑھو۔‘‘ امام بیہقی ؒ نے اس کی تطبیقی صورت یہ بیان کی ہے کہ پہلی کو فرض اور دوسری کو نفل قرار دے دیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ سے ایسا کرنا ثابت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم گھر میں نماز پڑھ لو پھر جماعت میں شمولیت کا بھی موقع مل جائے تو اسی نماز کو دوبارہ باجماعت پڑھ لینا چاہیے۔ دوسری نماز نفل ہوگی، نیز اگر ظالم حکمران نماز تاخیر سے پڑھیں تو اس وقت بھی یہی حکم ہے کہ گھر میں بروقت نماز پڑھ لی جائے پھر فتنے سے بچتے ہوئے ان کے ساتھ جماعت میں شمولیت کر لی جائے اور اسے نفل کا درجہ دیا جائے۔ (فتح الباري:255/2) اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ نفل پڑھنے والے کے پیچھے فرض پڑھے جاسکتے ہیں جیسا کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے متعلق بعض طرق میں صراحت ہے کہ دوسری مرتبہ ادا کہ ہوئی نماز ان کے لیے نفل اور لوگوں کے لیے فرض ہوتی تھی۔ (فتح الباري:254/2)