تشریح:
1۔ ابن قتیبہ اور علامہ خطابی نے اس حدیث کے لفظ (تَتَوَضَّاءُ) پر اعتراض کیا ہے کہ اس میں تحریف ہوئی ہے یہ اصل میں (شوهاء) ہے جس کے معنی خوبصورت کے ہیں اس کی بنیاد یہ ہے کہ جنت دار تکلیف نہیں کہ وہاں وضو کرنے کی ضرورت ہو۔ لیکن یہ اعتراض برمحل نہیں کیونکہ وہ عورت اس لیے وضو کرتے ہوئے دکھائی گئی تاکہ اس کا حسن دوبالا ہو اور اس کے نور میں اضافہ ہو۔ وہ میل کچیل دور کرنے کرنے کے لیے وضو نہیں کرتی تھیں کیونکہ جنت اس سے پاک ہے۔ اس بنا پر ان بزرگوں کا صحیح بخاری کے الفاظ پر اعتراض درست نہیں۔
2۔ علامہ کرمانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے۔ کہ تتوضأ کا لفظ وضاءة سے مشتق ہے جس کے معنی نظافت و لطافت کے ہیں وضو سے بھی مشتق ہو سکتا ہے اور جنت کا دار تکلیف نہ ہونا اس امر سے مانع نہیں کیونکہ ہو سکتا ہےکہ یہ وضو بطور تکلیف نہ ہو۔ واللہ أعلم۔ (فتح الباري:519/12)