تشریح:
ان احادیث میں قیامت کی چند ایک نشانیاں بیان کی گئی ہیں جن کی مختصر تشریح حسب ذیل ہے: ©۔ تقارب زمان: لوگوں کے عیش وعشرت میں پڑ جانے کی بنا پر وقت سے برکت اٹھالی جائے گی یہاں تک کہ سال مہینے کی طرح، مہینہ، ہفتے کی طرح، ہفتہ دن کی طرح اور دن ایک گھڑی کی طرح گزرے گا کیونکہ لذت وسرور میں وقت گزرنے کا پتا نہیں چلتا۔ ©۔ عمل کی کمی: دنیا پرستی کی وجہ سے لوگوں کا اپنی آخرت سنوارنے کی طرف خیال نہیں ہوگا۔ نیک اعمال کی کمی ہوگی، لوگ بُرے اعمال میں دلچسپی لیں گے، پھر نقص عمل حسی، نقص دین کے باعث ہوگا، پھر وہ نقص عمل معنوی کا سبب بنے گا۔ کھانا پینا اچھا نہ ہوگا اور اچھے اعمال کرنے میں کوئی ان کے موافق نہ ہوگا، یعنی نفس راحت وآرام کی طرف مائل ہوں گے۔©۔ لالچ کی کثرت: لوگوں کے حالات مختلف ہونے کی بنا پران کے دلوں میں بخل، طمع اور لالچ جیسی بیماریاں جنم لیں گی۔ اصل طمع ولالچ تو ہر وقت موجود رہتا ہے، یہاں اس سے مراد ان کا غلبہ اور کثرت ہے جو دنیا میں فساد اور فتنوں کا باعث ہوگا۔ اس لالچ کی وجہ سے حرام وحلال کی تمیز ختم ہو جائے گی۔ ©۔ قتل وغارت کی بہتات: انسانی جان کی کوئی قدر وقیمت نہ ہوگی بلکہ انھیں گاجر مولی کی طرح کاٹا جائے گا۔ قاتل کو پتہ نہیں ہوگا کہ میں نے کیوں قتل کیا اور مقتول کو بھی علم نہ ہوگا کہ مجھے کس جرم کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ آج کل بم دھماکے، خود کش حملے اسی نوعیت کے ہیں۔ ©۔ جہالت کا دوردورہ:۔ لوگ دینی مسائل سے لا علم ہوں گے۔ سائنسی علوم کی ترقی کے دور میں دین کے متعلق کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہمارا خود مشاہدہ ہے کہ خاوند پندرہ دفعہ طلاق دے کر اپنی بیوی سے صلح کر لیتا ہے اور اسے برادری والے اس پر مجبور کر دیتے ہیں۔ جہالت کی وجہ سے بہنوں، بیٹیوں کے مقدس رشتوں کو اپنی نفسانی خواہش کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ ©۔ رفع علم: اہل علم ، ایک ایک کر کے اٹھ جائیں گے۔ اسی طرح ان کے چلے جانے سے علم بھی اٹھا لیا جائے گا۔ لوگ ایسے حالات میں جاہلوں سے مسائل دریافت کریں گے۔ وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ اس دور میں بھی صحیح اہل علم کے متعلق قحط الرجال ہے۔ ©۔ فتنوں کا غلبہ:۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فتنوں کا غلبہ ثابت کرنے کے لیے یہ احادیث بیان کی ہیں۔ آج کل ہر طرف فتنوں کا غلبہ ہے۔ اقتدار کا فتنہ، دولت کا فتنہ، بے حیائی کا فتنہ، اباحیت پسندی کا فتنہ، روشن خیالی کا فتنہ اور اولاد کا فتنہ۔ بہرحال اس وقت فتنوں کی بہتات ہے۔ کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے رہنا چاہیے: (اللهم إني أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ) ’’اے اللہ! میں فتنوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں، خواہ وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ۔’’ والله المستعان۔