تشریح:
اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ پرفتن دور پرامن دورسے بدترہوگا۔ عورتیں کپڑے پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی۔ محدثین نے اس جملے کے چند ایک مفہوم بیان کیے ہیں۔ ©۔ تونگری کی بنا پر دنیا میں لباس پہنا ہوگا لیکن بدعملی کی وجہ سے آخرت میں ثواب سے محروم ہوں گی۔ ©۔دنیا میں لباس پہنا ہوگا لیکن باریک ہونے کی وجہ سے ستر پوشی نہیں کرے گا، اس لیے آخرت میں انھیں یہ سزا دی جائے گی کہ ایسی عورتوں کو ننگا اُٹھایا جائے گا۔ ©۔اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتیں استعمال کریں گی لیکن شکرگزاری سے عاری ہوں گی جس کا نتیجہ آخرت میں سامنے آئے گا۔ (لباس اس قدر چست ہوگا کہ جسم کے نشیب وفراز نمایاں نظرآئیں گے، یوں محسوس ہوگا کہ گویا جسم ننگا ہے، اس کی سزا نھیں آخرت میں بھگتنا ہوگی۔ ©۔نیک صالح خاوند کے نکاح میں ہوں گی لیکن بدعملی کی وجہ سے انھیں قیامت کے دن اس رشتے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ (فتح الباري: 30/13)