تشریح:
1۔فتنے کے دور میں دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی طرح حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ موقف تھا کہ گوشہ نشینی اختیار کی جائے اور لڑائی سے کنارہ کشی کی جائے، اس لیے انھوں نے مذکورہ جواب دیا۔ ان کا یہ موقف درج ذیل حدیث کے مطابق تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فتنوں کا ذکر کیا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اگر مجھ پر ایسا وقت آجائے تو کیا کروں؟ آپ نے فرمایا: ’’اپنے ہاتھ اور زبان کو روک کر اپنی حویلی میں داخل ہو جانا۔‘‘ میں نے عرض کی: اگر فتنہ پرداز میری حویلی میں آجائیں تو؟ آپ نے فرمایا: ’’اپنے گھر میں داخل ہو جاؤ۔‘‘ عرض کی: اگر وہ گھر کے اندر آجائیں تو؟ آپ نے فرمایا: ’’مسجد میں چلے جاؤ۔‘‘ اور میری کلائی کو پکڑ کر فرمایا: ’’کہہ دو، میرا رب اللہ ہے یہاں تک کہ اسی پر تمھیں موت آ جائے۔‘‘ (مسند أحمد 449/1، و الصحیحة للألباني، حدیث: 3254) حضرت عبداللہ بن عمرو بن حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مشہور صحابی علاء بن حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھتیجے ہیں۔ انھیں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خون عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق فضا ہموار کرنے کے لیے بصرے بھیجا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جاریہ بن قدامہ کو بھیجا تاکہ انھیں گرفتار کیا جائے۔ حضرمی، ایک مکان میں چھپ گئے تو جاریہ نے مکان کا گھیراؤ کر کے اسے آگ لگا دی۔ اس طرح حضرت عبداللہ بن حضرمی اور ان کے رفقاء جل کر خاکستر ہوگئے۔ إناللہ و إنا إلیه راجعون۔ اس دوران میں جاریہ نے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق پوچھا کہ ان کا پتا کرو وہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کرتے ہیں یا نہیں۔ اس پر حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مذکورہ جواب دیا جو حدیث میں مذکورہ ہے۔ (فتح الباري: 36/13) بہرحال فتنے کے دور میں گوشہ نشینی ہی میں عافیت ہے۔ ایسے حالات میں جنگ وقتال کرنا فتنہ پروری ہے۔ ایک مسلمان کو اس سے بچنا چاہیے۔