تشریح:
1۔اس حدیث میں امام سے مراد کسی تنظیم کا امیر یا صدر نہیں اور نہ وہ سربراہِ حکومت ہی مراد ہیں جو مغربی جمہوریت کی پیداوار ہیں بلکہ اس سے مراد خلیفۃ المسلمین ہے جوتمام مسلمانوں کا سربراہ ہو،چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اگر ان دنوں زمین پر کوئی خلیفہ ہو تو اسے لازم پکڑو اگرچہ وہ تجھے سخت مارے اور تیرا سارا مال چھین لے۔ (مسندأحمد: 403/5، و الدیلمي: 31519 رقم 5621)
2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کے لیے پرفتن دور میں زندگی بسر کرنے کا منہج اور طریقہ بتایا ہے اگر عالم اسلام میں مسلمانوں کا کوئی امیر ہو تو اس کی اطاعت کی جائے اگرچہ اس میں کچھ نقص بھی ہو اور کچھ منکرات کا مرتکب بھی ہو اور اگر مسلمانوں کا کوئی سربراہ نہ ہو تو اس صورت میں اپنا وزن کسی ایک سیاسی جماعت کے پلڑے میں ڈالنے کے بجائے علیحدگی اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت وفرماں برداری کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر تیسری صورت جماعت تشکیل دینے کی ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ضرور ہدایت فرماتے کہ تم ایسے حالات میں خود کوئی جماعت بنالو اور ان میں سے ایک امیر منتخب کرکے اللہ تعالیٰ کے احکام جاری کرتے رہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ پرفتن دور میں جماعت بنانا اور لوگوں کو اس میں شمولیت کی دعوت دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منشا کے خلاف ہے۔
3۔ہمارے رجحان کے مطابق خلیفے کی عدم موجودگی میں امارت کے چکر میں پڑ جانے کے بجائے انفرادی یا اجتماعی طور پر قرآن وحدیث پر خود عمل کیا جائے اور یہی دعوت لوگوں میں پھیلائی جائے، نیز جماعتی تعصب سے خود کو بالاتر رکھا جائے۔ واللہ أعلم۔