تشریح:
یہ حدیث علامات نبوت میں سے ہے کیونکہ اس میں لوگوں کے دین خراب ہونے اور آخر زمانہ میں امانت کے رخصت ہو جانے کا امکان ہے۔ حدیث میں بیان کردہ مثال کا خلاصہ یہ ہے کہ آہستہ آہستہ لوگوں کے لوں سے امانت جاتی رہے گی۔ بالآخر اندھیرا ہی اندھیرا باقی رہ جائے گا۔ آج کل تو امانت ودیانت کا خون کیا جا رہا ہے، کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو دین کے دعوے دار ہونے کے باجود امانت ودیانت سے بالکل کورے ہیں۔ جب ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ امانت ودیانت کے متعلق کسی پر اعتماد اور بھروسا نہ کیا جا سکے، نیز دھوکے باز لوگوں کی کثرت سے ہو جائے تو انسان کو ایسے لوگوں کی فکر کرنے کے بجائے خود اپنی فکر کرنی چاہیے، البتہ فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی جاری رہنا چاہیے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے یہی مقصد معلوم ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔