تشریح:
1۔اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے جنت کی بشارت کے ساتھ ایک آزمائش کا بھی ذکر کیا جس سے وہ دوچار ہوں گے۔واقعی وہ آزمائش سمندر کی طرح موجزن تھی۔ اگرچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شہید ہوئے تھے لیکن انھیں ایک بدبخت نے نماز فجر کے دوران میں دھوکے سے شہید کیا لیکن انھیں وہ آفتیں نہ آئیں جن سے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دوچار ہونا پڑا،چنانچہ ایک سازشی گروہ نے محض تخریب وانتشار کی خاطر آپ پر گھناؤ نے الزامات لگائے۔آپ کو اقرباء پروری، بیت المال کے بے جا استعمال کا طعنہ دیا، نیز بئر رومہ جسے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود خرید کرمسلمانوں کے لیے وقف کیا تھا، اس کا پانی آپ کے لیے بند کر دیا۔ مسجد نبوی جس کی توسیع آپ نےاپنی جیب خاص سے کی تھی، اس میں نماز پڑھنے سے آپ کو روک دیا، پھر یہ بھی مطالبہ کیا کہ خود خلافت سے دستبردار ہو جائیں۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں فرمایا تھا کہ لوگ تم سے خلعت امامت اتارنا چاہیں گے ان کے کہنے پر یہ اقدام نہ کرنا۔ (جامع الترمذي، المناقب، حدیث: 3705)
2۔اس سازشی گروہ نے اس حد تک ظلم وزیادتی کی کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں گھس گئے اور آپ کے اہل خانہ کو بھی زخمی کیا۔ ایسے حالات میں آپ کی مظلومانہ شہادت عمل میں آئی۔ کہتے ہیں کہ شہادت کے وقت حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن مجید کی تلاوت کر رہے تھے۔ چنانچہ قدرت نے پھر ان ظالموں سے انتقام لیا جس کی تفصیل تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔ بہرحال حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مظلومانہ شہادت کا فتنہ بہت بڑا فتنہ تھا۔ اس کی کوکھ سے جنگ صفین اور جنگ جمل نے جنم لیا جس میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمان شہید ہوئے اور اس شہادت نے اُمت مسلمہ کو ہلاک کر دیا۔ واللہ المستعان۔