قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الفِتَنِ (بَابُ الفِتْنَةِ الَّتِي تَمُوجُ كَمَوْجِ البَحْرِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: عَنْ خَلَفِ بْنِ حَوْشَبٍ: كَانُوا يَسْتَحِبُّونَ أَنْ يَتَمَثَّلُوا بِهَذِهِ الأَبْيَاتِ عِنْدَ الفِتَنِ، قَالَ امْرُؤُ القَيْسِ: الحَرْبُ أَوَّلُ مَا تَكُونُ فَتِيَّةً ... تَسْعَى بِزِينَتِهَا لِكُلِّ جَهُولِ حَتَّى إِذَا اشْتَعَلَتْ وَشَبَّ ضِرَامُهَا ... وَلَّتْ عَجُوزًا غَيْرَ ذَاتِ حَلِيلِ شَمْطَاءَ يُنْكَرُ لَوْنُهَا وَتَغَيَّرَتْ ... مَكْرُوهَةً لِلشَّمِّ وَالتَّقْبِيلِ

7097. حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ قَالَ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا إِلَى حَائِطٍ مِنْ حَوَائِطِ الْمَدِينَةِ لِحَاجَتِهِ وَخَرَجْتُ فِي إِثْرِهِ فَلَمَّا دَخَلَ الْحَائِطَ جَلَسْتُ عَلَى بَابِهِ وَقُلْتُ لَأَكُونَنَّ الْيَوْمَ بَوَّابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَأْمُرْنِي فَذَهَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَضَى حَاجَتَهُ وَجَلَسَ عَلَى قُفِّ الْبِئْرِ فَكَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ وَدَلَّاهُمَا فِي الْبِئْرِ فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ يَسْتَأْذِنُ عَلَيْهِ لِيَدْخُلَ فَقُلْتُ كَمَا أَنْتَ حَتَّى أَسْتَأْذِنَ لَكَ فَوَقَفَ فَجِئْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَبُو بَكْرٍ يَسْتَأْذِنُ عَلَيْكَ قَالَ ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ فَدَخَلَ فَجَاءَ عَنْ يَمِينِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ وَدَلَّاهُمَا فِي الْبِئْرِ فَجَاءَ عُمَرُ فَقُلْتُ كَمَا أَنْتَ حَتَّى أَسْتَأْذِنَ لَكَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ فَجَاءَ عَنْ يَسَارِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ فَدَلَّاهُمَا فِي الْبِئْرِ فَامْتَلَأَ الْقُفُّ فَلَمْ يَكُنْ فِيهِ مَجْلِسٌ ثُمَّ جَاءَ عُثْمَانُ فَقُلْتُ كَمَا أَنْتَ حَتَّى أَسْتَأْذِنَ لَكَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ مَعَهَا بَلَاءٌ يُصِيبُهُ فَدَخَلَ فَلَمْ يَجِدْ مَعَهُمْ مَجْلِسًا فَتَحَوَّلَ حَتَّى جَاءَ مُقَابِلَهُمْ عَلَى شَفَةِ الْبِئْرِ فَكَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ ثُمَّ دَلَّاهُمَا فِي الْبِئْرِ فَجَعَلْتُ أَتَمَنَّى أَخًا لِي وَأَدْعُو اللَّهَ أَنْ يَأْتِيَ قَالَ ابْنُ الْمُسَيَّبِ فَتَأَوَّلْتُ ذَلِكَ قُبُورَهُمْ اجْتَمَعَتْ هَا هُنَا وَانْفَرَدَ عُثْمَانُ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

ابن عیینہ نے خلف بن حوشب سے بیان کیا کہ سلف فتنہ کے وقت ان اشعار سے مثال دینا پسند کرتے تھے۔ جن میں امراءالقیس نے کہا ہے۔ ابتدا میں اک جواں عورت کی صورت ہے یہ جنگ دیکھ کر ناداں اسے ہوتے ہیں عاشق اور دنگ جبکہ بھڑکے شعلے اس کے پھیل جائیں ہر طرف تب وہ ہو جاتی ہے بوڑھی اور بدل جاتی ہے رنگ ایسی بد صورت کو رکھے کون چونڈا ہے سفید سونگھنے اور چومنے سے اس کے سب ہوتے ہیں تنگ امراءالقیس کے اشعار کا مندرجہ بالا منظوم ترجمہ مولانا وحید الزماں نے کیا ہے۔ جبکہ نثر میں ترجمہ اس طرح ہے۔ ” اول مرحلہ پر جنگ ایک نوجوان لڑکی معلوم ہوتی ہے جو ہر نادان کے بہکانے کے لیے اپنی زیب و زینت کے ساتھ دوڑتی ہے۔ یہاں تک کہ جب لڑائی بھڑک اٹھتی ہے اور اس کے شعلے بلند ہونے لگتے ہیں تو ایک رانڈ بیوہ بڑھیا کی طرح پیٹھ پھیر لیتی ہے، جس کے بالوں میں سیاہی کے ساتھ سفیدی کی ملاوٹ ہوگئی ہو اور اس کے رنگ کو ناپسند کیا جاتا ہو اور وہ اس طرح بدل گئی ہو کہ اس سے بوس و کنار کو ناپسند کیا جاتا ہو “

7097.

حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ مدینہ طیبہ کے باغات میں سے کسی باغ کی طرف اپنی کسی ضرورت کے لیے تشریف لے گئے۔ میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے گیا۔ جب آپ باغ میں داخل ہوئے تو میں اس کے دروازے پر بیٹھ گیا اور نے (دل میں)کہا: آج میں نبی ﷺ کا چوکیدار بنوں گا حالانکہ آپ نے مجھے حکم نہیں دیا تھا، چنانچہ نبی ﷺ تشریف لے گئے، اپنی حاجت کو پورا کیا پھر واپس آکر کنویں کی منڈیر پر بیٹھ گئے۔ آپ نے اپنی دونوں پنڈلیاں کھول کر انہیں کنویں میں لٹکا لیا۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر ؓ آئے اور اندر جانے کی اجازت طلب کی۔ میں نے ان سے کہا: میں آپ کے لیے اجازت لے کر آتا ہوں۔ چنانچہ وہ کھڑے رہے اور میں نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا یا نبی اللہ! ابوبکر ؓ آپ کے پاس آنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”انہیں اجازت دے دو اور انہیں جنت کی بشارت سنا دو۔“ چنانچہ وہ اندر گئے اور نبی ﷺ کی دائیں جانب آکر انہوں نے بھی اپنی پنڈلیاں کھول کر انہیں کنویں میں لٹکا لیا۔ اتنے میں حضرت عمر رضی اللہ آئے۔ میں نے ان سے کہا: ٹھہرو، میں آپ کے لیے اجازت لے لوں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”ان کو بھی اجازت دے دو اور جنت کی بشارت دے دو۔“ چنانچہ وہ بھی آئے کنویں کی منڈیر پر نبی ﷺ کی بائیں جانب بیٹھے اور اپنی پنڈلیاں کھول کر کنویں میں لٹکا دیں۔ اب کنویں کی منڈیر بھر گئی اور وہاں کوئی جگہ باقی نہ رہی۔ پھر حضرت عثمان ؓ آئے۔ میں نے ان سے بھی کہا: آپ ذرا ٹھہریں یہاں تک کہ میں آپ ﷺ سے آپ کے متعلق اجازت لے لوں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”انہیں بھی اجازت دے دو اور جنت کی بشارت سنا دو، لیکن اس کے ساتھ ایک آزمائش ہوگی جو انہیں پہنچے گی۔“ چنانچہ وہ تشریف لائے اور ان کے ساتھ بیٹھنے کی جگہ نہ پائی تو گھوم کر ان کے سامنے کنویں کے کنارے پر آئے۔ پھر انہوں نے بھی اپنی پنڈلیاں کھول کر پاؤں لٹکا لیے۔ پھر میرے دل میں اپنے بھائی کے متعلق خواہش پیدا ہوئی تو میں اللہ سے ان کے آنے کی دعا کرنے لگا۔ ابن مسیب نے کہا: میں نے ان سے ان حضرات کی قبروں کی تاویل کی جو ایک جگہ موجود ہوں گی اور حضرت عثمان ؓ کی قبر ان سے الگ ہوگی۔