تشریح:
1۔حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تقریر کا مطلب یہ تھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس اقدام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت سے تو خارج نہیں ہوئیں، البتہ اللہ تعالیٰ سے تمھیں ان کے ذریعے سے ایک آزمائش میں ضرور ڈالاہے۔اس میں اشارہ تھا کہ تم لوگ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اطاعت کرو کیونکہ وہ امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اوراصولی طور پر خلیفہ راشد ہیں۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اگرچہ عظیم شخصیت ہیں اور دنیا وآخرت میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ہیں لیکن اس عظیم منصب کے باوجود وہ مسلمانوں کی خلیفہ نہیں جو واجب اطاعت ہوں۔
2۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس موقع پر حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے ایک پیغام پڑھ کر سنایا:میں ہر آدمی کو اللہ کاواسطہ دے کر کہتا ہوں جو حق اختیار کرنے کا خوگر ہے وہ ہمارا ساتھ دے۔ اگر میں مظلوم ہوں تو اللہ میری مدد کرے گا اور اگر میں ظالم ہوں تو اللہ مجھے تباہ کرے گا۔ اللہ کی قسم! حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلے مجھ سے بیعت کی، پھر اسے توڑ کر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہمراہ لڑائی کے لیے سامنے آگئے ہیں، مجھے نہ تو مال وغیرہ کی طمع ہے اور نہ میں نے کسی معاملے کو تبدیل ہی کیا ہے۔ (فتح الباري: 73/13)