تشریح:
1۔اس حدیث میں قیامت کی نشانیوں کا بیان ہے۔ ان میں سے کچھ ظاہر ہو چکی ہیں اور کچھ آئندہ ظاہر ہوں گی۔ ان کا کتاب الفتن سے اس طرح تعلق ہے کہ قیامت سے پہلے دو بڑی جماعتیں باہم جنگ کریں گی جن کا دعویٰ ایک ہو گا۔ اس سے مراد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی باہمی جنگ ہے۔ چونکہ دونوں حضرات جلیل القدر صحابی ہیں، لہذا اگر ان میں سے کوئی غلطی پر تھا تو وہ ان شاء اللہ گناہگار نہ ہوگا بلکہ مستحق ثواب ہوگا۔
2۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ایک آدمی نے کہا: میں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بغض رکھتا ہوں کیونکہ انھوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بلاوجہ جنگ کی تھی۔ اس سے کہا گیا کہ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا رب بہت مہربان ہے اور اس کے مدمقابل بھی بہت کرم پیشہ تھا، تجھے ان میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے۔ (فتح الباري: 108/13)