قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الأَحْكَامِ (بَابُ رِزْقِ الحُكَّامِ وَالعَامِلِينَ عَلَيْهَا)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَكَانَ شُرَيْحٌ القَاضِي يَأْخُذُ عَلَى القَضَاءِ أَجْرًا وَقَالَتْ عَائِشَةُ: «يَأْكُلُ الوَصِيُّ بِقَدْرِ عُمَالَتِهِ» وَأَكَلَ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ

7163. حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ، ابْنُ أُخْتِ نَمِرٍ، أَنَّ حُوَيْطِبَ بْنَ عَبْدِ العُزَّى، أَخْبَرَهُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ السَّعْدِيِّ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ قَدِمَ عَلَى عُمَرَ فِي خِلاَفَتِهِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: أَلَمْ أُحَدَّثْ أَنَّكَ تَلِيَ مِنْ أَعْمَالِ النَّاسِ أَعْمَالًا، فَإِذَا أُعْطِيتَ العُمَالَةَ كَرِهْتَهَا، فَقُلْتُ: بَلَى، فَقَالَ عُمَرُ: فَمَا تُرِيدُ إِلَى ذَلِكَ، قُلْتُ: إِنَّ لِي أَفْرَاسًا وَأَعْبُدًا وَأَنَا بِخَيْرٍ، وَأُرِيدُ أَنْ تَكُونَ عُمَالَتِي صَدَقَةً عَلَى المُسْلِمِينَ، قَالَ عُمَرُ: لاَ تَفْعَلْ، فَإِنِّي كُنْتُ أَرَدْتُ الَّذِي أَرَدْتَ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِينِي العَطَاءَ، فَأَقُولُ: أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي، حَتَّى أَعْطَانِي مَرَّةً مَالًا، فَقُلْتُ: أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خُذْهُ، فَتَمَوَّلْهُ، وَتَصَدَّقْ بِهِ، فَمَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا المَالِ وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ وَلاَ سَائِلٍ فَخُذْهُ، وَإِلَّا فَلاَ تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور قاضی شریح قضا کی تنخواہ لیتے تھے اور عائشہ ؓ  نے کہا کہ ( یتیم کا) نگراں اپنے کام کے مطابق خرچہ لے گا اور ابوبکرہ و عمر ؓ نے بھی ( خلیفہ ہونے پر) بیت المال سے بقدر کفایت تنخواہ لی تھی۔ جمہور علماءکا یہی قول ہے کہ حکومت اور قضا کی تنخواہ لینا درست ہے مگر بقدر کفاف ہونا نہ کہ حد سے آگے بڑھنا۔

7163.

سیدنا عبداللہ بن سعدی سے روایت ہے کہ وہ سیدنا عمر ؓ کے دور خلافت میں ان کے پاس گئےتو سیدنا عمر ؓ کے دور خلافت میں ان کے پاس گئے تو سیدنا عمر ؓ نے ان سے پوچھا: کیا مجھ سے جو کہا گیا ہے وہ صحیح ہے کہ لوگوں کے کام تمہارے سپرد کیے جاتے ہیں اور جب تمہیں اس کی تنخواہ دی جاتی ہے تو تم اسے لینا ناپسند کرتے ہو؟ انہوں نے کہا: یہ بات صحیح ہے۔ سیدنا عمر ؓ نے فرمایا: تمہارا اس سے کیا مقصد ہے؟ میں نے کہا : میرے پاس بہت سے گھوڑے اور غلام ہیں۔ نیز میں خوشحال ہوں اور میں میں چاہتا ہوں کہ میری تنخواہ مسلمانوں پر صدقہ ہو جائے۔ سیدنا عمر ؓ نے کہا: تم ایسا نہ کرو کیونکہ میں نے بھی ایک دفعہ اس بات کا ارادہ کیا تھا جس کا تم نے ارادہ کیا ہے، رسول اللہ ﷺ مجھے عطا فرماتے تو میں کہ دیتا: آپ یہ مجھ سے زیادہ ضروت مند کو عطا کردیں۔ آپ نے مجھے ایک بار مال عطا کیا اور میں نے وہی بات دہرائی کہ آپ یہ ایسے شخص کو دے دیں جو اس کا مجھ سے زیادہ حاجت مند ہے تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”اسے لے لو اور اس کا مالک بننے کے بعد اسے صدقہ کردو۔ یہ مال تمہیں جب اس طرح ملے کہ تم اس کے نہ خواہش مند ہو اور نہ تم نہ یہ مانگا ہوتو اسے لے لیا اور اگر اس طرح نہ ملے اور اس کے پیچھے نہ لگا کرو“