تشریح:
1۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی یہ حدیث پہلے ایک واقعے کے ضمن میں بیان ہوئی تھی۔اب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے مستقل طور پر بیان کیا ہے تاکہ اس کی استنادی حیثیت مضبوط ہو جائے۔اس حدیث کے مطابق اگر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ مال نہ لیتے اور اس واپس کر دیتے تو اس کی وہ افادیت نہ ہوتی جو اس کے لینے اور صدقہ کردینے میں ہے۔2۔بعض دفعہ مال واپس کر دینے میں بھی نفس میں ایک غرور سا پیدا ہو جاتا ہے اگر کوئی شخص اس طرح کا تکبر اپنے اندر محسوس کرے تو اسے لے لینا چاہیے پھر اسے خیرات کردے۔ ایسے حالات میں اس کا لینا اس کے نہ لینے سے کہیں بہتر ہے آج کل دینی خدمات سر انجام دینے والوں کے لیے بھی یہی بہتر ہے کہ وہ ضرورت کے مطابق تنخواہ ضرورلیں۔ اگر صاحب حیثیت ہیں تو بھی وصول کر لیں پھر اسے خیرات کردیں۔