تشریح:
(1) نماز کے لیے صفوں کا سیدھا کرنا ضروری ہے، خواہ اقامت سے پہلے یا اس کے دوران میں یا اس کے بعد ہو، وقت کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ امام بخاری ؒ نے پہلے ایک عنوان قائم کیا تھا کہ تکبیر کے وقت جب لوگ امام کو دیکھ لیں تو نماز کے لیے کھڑے ہو جائیں۔ اس کا تقاضا تھا کہ تکبیر کے بعد فوراً نماز کھڑی کر دینی چاہیے۔ امام بخاری ؒ نے مذکور بالا عنوان قائم کر کے یہ تنبیہ فرمادی کہ اگر صفوں میں کچھ کمی رہ گئی ہوتو انھیں اقامت کے بعد بھی درست کیا جاسکتا ہے، بہر حال امام کو اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ نمازیوں کی صفیں بالکل سیدھی ہوں،ا ن میں کوئی شگاف نہ ہو۔ امام بخاری ؒ نے حدیث کے عموم سے استدلال کیا ہے کہ صفوں کو سیدھا کرنے کےلیے وقت کی کوئی پابندی نہیں۔ حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے عنوان میں اقامت کے وقت یا اس کے بعد کے الفاظ بڑھا کر حسب عادت حدیث کے بعض طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ تنبیہ اس وقت فرمائی جب تکبیر تحریمہ کہنے والے تھے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:719) اور حضرت انس ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ جب نماز کے لیے اقامت کہہ دی گئی تو اس وقت ہماری طرف متوجہ ہو کر مذکورہ تنبیہ ارشاد فرمائی۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:979(436))
(2) صفوں کو سیدھا کرنا ضروری ہے۔ اگر اس سلسلے میں کوتاہی کی تو ظاہری مخالفت کا اثر باطن پر پڑے گا کہ لوگوں کے درمیان محبت والفت نہیں رہے گی بلکہ ان کے دلوں میں اختلافات پیدا ہوں گے جن سے ان کی وحدت پارہ پارہ ہوگی اور دشمنوں پر ان کا رعب بھی ختم ہوجائے گا، جیسا کہ سنن ابو داؤد میں ہے کہ صفوں کو سیدھا کرو بصورت دیگر اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں اختلاف پیدا کردے گا۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:662) یہ بھی ممکن ہے کہ صفوں کے متعلق شرعی حکم کی مخالفت کرنے سے چہروں میں بگاڑ پیدا ہوجائے، انھیں گدی کی جانب کردیا جائے یا انھیں بالکل مسخ کرکے کسی حیوان کی صورت میں تبدیل کردیا جائے۔ بعض روایات سے اس مفہوم کی بھی تائید ہوتی ہے۔ (فتح الباري:269/2)