تشریح:
1۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو ہدیے اور نذرانے حکمرانوں کو رعایا کی طرف سے دیے جاتے ہیں وہ رشوت ہیں، چنانچہ ایک حدیث میں ہے: ’’حاکم وقت کے تحائف اور نذرانے مال خیانت ہیں۔‘‘ (مسند احمد 5/424) اسی طرح بادشاہ کو بادشاہ کی حیثیت سے جو تحفہ دیا جائے وہ بیت المال میں شامل ہوگا، ہاں اگر بادشاہ اپنی ذات کے لیے ہدیہ قبول کرے تو وہ اس کے لیے جائز ہے۔ اگر امام وقت کسی کارندے کے لیے ہدیہ مباح کر دے تو وہ ا کے لیے جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن کا حاکم مقرر کرتے وقت فرمایا تھا: ’’میں نے تیرے لیے ہدیہ حلال کیا ہے۔‘‘ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن میں جوہدایا ملے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کرآئے۔ اس دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو چکا تھا۔ انھوں نےحضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ واقعہ بیان کیا توانھوں نے یہ جائز قرار دیا ہے۔ (عمدة القاري: 428/16)
2۔ہمارے رجحان کے مطابق حاکم وقت کے ہدایا رشوت ہیں کیونکہ اگر وہ حاکم نہ ہوتا تو کوئی بھی اسے ہدیہ نہ دیتا، اسی طرح قاضی کا ہدیہ بھی حرام ہے۔ ابن بطال کہتے ہیں کہ اگر مقروض، قرض خواہ کو ہدیہ دیتا ہے تو وہ بھی اسی کے حکم میں ہے الا یہ کہ اسے قرض سے منہا کر دیا جائے توجائز ہے۔ (فتح الباري: 208/13)