قسم الحديث (القائل): موقوف ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الأَحْكَامِ (بَابُ يُسْتَحَبُّ لِلْكَاتِبِ أَنْ يَكُونَ أَمِينًا عَاقِلًا)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

7191. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ أَبُو ثَابِتٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ بَعَثَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ لِمَقْتَلِ أَهْلِ الْيَمَامَةِ وَعِنْدَهُ عُمَرُ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّ عُمَرَ أَتَانِي فَقَالَ إِنَّ الْقَتْلَ قَدْ اسْتَحَرَّ يَوْمَ الْيَمَامَةِ بِقُرَّاءِ الْقُرْآنِ وَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَسْتَحِرَّ الْقَتْلُ بِقُرَّاءِ الْقُرْآنِ فِي الْمَوَاطِنِ كُلِّهَا فَيَذْهَبَ قُرْآنٌ كَثِيرٌ وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ الْقُرْآنِ قُلْتُ كَيْفَ أَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عُمَرُ هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يُرَاجِعُنِي فِي ذَلِكَ حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ لَهُ صَدْرَ عُمَرَ وَرَأَيْتُ فِي ذَلِكَ الَّذِي رَأَى عُمَرُ قَالَ زَيْدٌ قَالَ أَبُو بَكْرٍ وَإِنَّكَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ لَا نَتَّهِمُكَ قَدْ كُنْتَ تَكْتُبُ الْوَحْيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَتَبَّعْ الْقُرْآنَ فَاجْمَعْهُ قَالَ زَيْدٌ فَوَاللَّهِ لَوْ كَلَّفَنِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنْ الْجِبَالِ مَا كَانَ بِأَثْقَلَ عَلَيَّ مِمَّا كَلَّفَنِي مِنْ جَمْعِ الْقُرْآنِ قُلْتُ كَيْفَ تَفْعَلَانِ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ فَلَمْ يَزَلْ يَحُثُّ مُرَاجَعَتِي حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ اللَّهُ لَهُ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَرَأَيْتُ فِي ذَلِكَ الَّذِي رَأَيَا فَتَتَبَّعْتُ الْقُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنْ الْعُسُبِ وَالرِّقَاعِ وَاللِّخَافِ وَصُدُورِ الرِّجَالِ فَوَجَدْتُ فِي آخِرِ سُورَةِ التَّوْبَةِ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ إِلَى آخِرِهَا مَعَ خُزَيْمَةَ أَوْ أَبِي خُزَيْمَةَ فَأَلْحَقْتُهَا فِي سُورَتِهَا وَكَانَتْ الصُّحُفُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ حَيَاتَهُ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ثُمَّ عِنْدَ عُمَرَ حَيَاتَهُ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ ثُمَّ عِنْدَ حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ اللِّخَافُ يَعْنِي الْخَزَفَ

مترجم:

7191.

سیدنا زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ یمامہ سے جنگ میں بکثرت شہادت کی بنا پر سیدنا ابو بکر ؓ نے مجھے بلا بھیجا۔ اس وقت ان کے پاس سیدنا عمر ؓ بھی تھے۔ سیدنا ابو بکر ؓ نے فرمایا: میرے پاس سیدنا عمر ؓ آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ جنگ میں قرآن کے قاریوں کا قتل بہت ہوا ہے اور مجھے ڈر ہے اگر اسی طرح قرآن کے قاری دوسری جنگوں میں قتل ہوتے رہے توقرآن کا بہت سا حصہ ضائع ہوجائے گا۔ میرا خیال ہے کہ آپ قرآن جمع کرنے کا اہتمام کریں۔ میں نے (انہیں ) کہا: میں وہ کام کسے کرسکتا ہوں جو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا؟ سیدنا عمر ؓ کہا: اللہ کی قسم! یہ تو کار خیر ہے ۔اور وہ مسلسل میرے ساتھ اس مسئلے میں تکرار کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ میں میرا سینہ اس کے لیے کھول دیا جس کے لیے عمر ؓ سینہ کھولا تھا اور میں بھی وہی مناسب خیال کرنے لگا جسے سیدنا عمر ؓ مناسب سمجھتے تھے۔ سیدنا زید ؓ نے بیان کیا کہ مجھ سے سے سیدنا ابو بکر ؓ نے فرمایا: تم جوان ہو، عقل مند ہو،ہم تمہیں کسی معاملے میں مہتمم بھی نہیں خیال کرتے۔ تم رسول اللہ ﷺ کی وحی لکھا کرتے تھے، لہذا تم قرآنی آیات کو تلاش کرو ،پھر انہیں ایک جگہ جمع کردو۔ سیدنا زید ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! اگر سیدنا ابو بکر ؓ مجھے پہاڑوں میں سے کوئی پہاڑ اٹھا لانے کی تکیلیف دیتے تو اس کا بوجھ مجھے اتنا محسوس نہ ہوتا جتنا قرآن مجید کو جمع کرنے کے حکم سے محسوس ہوا۔ میں نے ان حضرات سے کہا: آپ کس طرح ایسا کام کرتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا؟ سیدنا ابو بکر ؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! یہ کار خیر ہے، چنانچہ وہ مجھے اس کام کے لیے امادہ کرتے رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے میرا سینہ بھی کھول دیا جس کے لیے سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر ؓ کا سینہ کھولا تھا اور میں بھی وہی مناسب خیال کرنے لگا جسے وہ مناسب سمجھتے تھے۔ بہرحال میں نے قرآن مجید کی تلاش شروع کردی۔ میں اسے کھجور کی شاخوں ،چمڑے کے ٹکڑوں ، سفید پتھروں اور لوگوں کے سینوں سے جمع کرنے لگا۔ میں نے سورہ توبہ کی آخری آیت: «لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ» سیدنا خزیمہ یا ابو خزیمہ ؓ کے پاس پائی اور اسے سورت میں شامل کردیا۔ اس کے بعد یہ مرتب صحیفے سیدنا ابو بکر ؓ کے پاس رہے، پھر جب اللہ تعالیٰ نے انہیں وفات دی تووہ سیدنا عمر ؓ کے پاس رہے حتی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں فوت کردیا۔ اس کے بعد وہ سیدہ حفصہ بنت عمر‬ ؓ ک‬ے پاس رہے۔۔ محمد بن عبید اللہ نے کہا: لخاف سے مراد ٹھیکریاں ہیں۔