تشریح:
1۔اس حدیث کے مطابق حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےحضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوعقلمند کہا،پھر اسی عقل ودانش کو ان کے امانت دار ہونے کا سبب قراردیا بصورت دیگرصرف عقل مند ہونا توامانت دار ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا۔ بہت سے عقلمند پر لے درجے کے خیانت پیشہ ثابت ہوتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں عبداللہ بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی فریضہ کتابت ادا کرتے تھے۔ ان کی امانت ودیانت کا یہ حال تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملوک وسلاطین (بادشاہوں) کتابت کرتے تھے۔
2۔روایات میں ہے کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک عیسائی کاتب رکھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں ڈانٹا اوریہ آیت تلاوت فرمائی: ’’اے ایمان والو!یہودونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔‘‘ (المآئدة: 51) حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی: اسے میں نے دوست نہیں بنایا بلکہ بطور کاتب رکھا ہے۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: کیا تمھیں مسلمانوں میں کوئی کاتب نہیں ملتا جو تمہارا یہ کام کرسکے؟ جب اللہ تعالیٰ نے انھیں دور کیا ہے، خیانت پیشہ کہا ہے اور ذلیل قرار دیا ہے تو تم انھیں اپنےقریب کیوں کرتے ہو؟ انھیں امانت دارقرار دیتے ہو اور یہ عہدہ دے کر ان کی حوصلہ افزائی کیوں کرتے ہو۔ (فتح الباري: 13/228)