موضوعات
قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی
صحيح البخاري: كِتَابُ الأَحْكَامِ (بَابُ الشَّهَادَةِ عَلَى الخَطِّ المَخْتُومِ)
حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
ترجمة الباب: وَمَا يَجُوزُ مِنْ ذَلِكَ وَمَا يَضِيقُ عَلَيْهِمْ، وَكِتَابِ الحَاكِمِ إِلَى عَامِلِهِ وَالقَاضِي إِلَى القَاضِي وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ: كِتَابُ الحَاكِمِ جَائِزٌ إِلَّا فِي الحُدُودِ، ثُمَّ قَالَ: إِنْ كَانَ القَتْلُ خَطَأً فَهُوَ جَائِزٌ، لِأَنَّ هَذَا مَالٌ بِزَعْمِهِ، وَإِنَّمَا صَارَ مَالًا بَعْدَ أَنْ ثَبَتَ القَتْلُ، فَالخَطَأُ وَالعَمْدُ وَاحِدٌ وَقَدْ كَتَبَ عُمَرُ إِلَى عَامِلِهِ فِي الجَارُودِ وَكَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ العَزِيزِ فِي سِنٍّ كُسِرَتْ وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ: كِتَابُ القَاضِي إِلَى القَاضِي جَائِزٌ إِذَا عَرَفَ الكِتَابَ وَالخَاتَمَ وَكَانَ الشَّعْبِيُّ يُجِيزُ الكِتَابَ المَخْتُومَ بِمَا فِيهِ مِنَ القَاضِي وَيُرْوَى عَنْ ابْنِ عُمَرَ نَحْوُهُ وَقَالَ مُعَاوِيَةُ بْنُ عَبْدِ الكَرِيمِ الثَّقَفِيُّ: شَهِدْتُ عَبْدَ المَلِكِ بْنَ يَعْلَى قَاضِيَ البَصْرَةِ، وَإِيَاسَ بْنَ مُعَاوِيَةَ، وَالحَسَنَ، وَثُمَامَةَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ، وَبِلاَلَ بْنَ أَبِي بُرْدَةَ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ بُرَيْدَةَ الأَسْلَمِيَّ، وَعَامِرَ بْنَ عَبِيدَةَ، وَعَبَّادَ بْنَ مَنْصُورٍ، يُجِيزُونَ كُتُبَ القُضَاةِ بِغَيْرِ مَحْضَرٍ مِنَ الشُّهُودِ، فَإِنْ قَالَ: الَّذِي جِيءَ عَلَيْهِ بِالكِتَابِ: إِنَّهُ زُورٌ، قِيلَ لَهُ: اذْهَبْ فَالْتَمِسِ المَخْرَجَ مِنْ ذَلِكَ، وَأَوَّلُ مَنْ سَأَلَ عَلَى كِتَابِ القَاضِي البَيِّنَةَ ابْنُ [ص:67] أَبِي لَيْلَى، وَسَوَّارُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَقَالَ لَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُحْرِزٍ: جِئْتُ بِكِتَابٍ مِنْ مُوسَى بْنِ أَنَسٍ قَاضِي البَصْرَةِ، وَأَقَمْتُ عِنْدَهُ البَيِّنَةَ: أَنَّ لِي عِنْدَ فُلاَنٍ كَذَا وَكَذَا، وَهُوَ بِالكُوفَةِ، وَجِئْتُ بِهِ القَاسِمَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَأَجَازَهُ وَكَرِهَ الحَسَنُ، وَأَبُو قِلاَبَةَ: أَنْ يَشْهَدَ عَلَى وَصِيَّةٍ حَتَّى يَعْلَمَ مَا فِيهَا، لِأَنَّهُ لاَ يَدْرِي لَعَلَّ فِيهَا جَوْرًا وَقَدْ كَتَبَ النَّبِيُّ ﷺإِلَى أَهْلِ خَيْبَرَ: «إِمَّا أَنْ تَدُوا صَاحِبَكُمْ، وَإِمَّا أَنْ تُؤْذِنُوا بِحَرْبٍ» وَقَالَ الزُّهْرِيُّ، فِي الشَّهَادَةِ عَلَى المَرْأَةِ مِنْ وَرَاءِ السِّتْرِ: «إِنْ عَرَفْتَهَا فَاشْهَدْ، وَإِلَّا فَلاَ تَشْهَدْ»
7228 . حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ سَمِعْتُ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ لَمَّا أَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَكْتُبَ إِلَى الرُّومِ قَالُوا إِنَّهُمْ لَا يَقْرَءُونَ كِتَابًا إِلَّا مَخْتُومًا فَاتَّخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمًا مِنْ فِضَّةٍ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى وَبِيصِهِ وَنَقْشُهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ
صحیح بخاری:
کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
باب:مہری خط پر گواہی دینے کا بیان
)مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
( کہ فلاں شخص کا خط ہے) اور کون سی گواہی اس مقدمہ میں جائز ہے اور کون سی ناجائز اور حاکم جو اپنے نائبوں کو پروانے لکھے۔ اسی طرح ایک ملک کا قاضی دوسرے ملک کے قاضی کو، اس کا بیان اور بعض لوگوں نے کہا حاکم جو پروانے اپنے نائبوں کو لکھے ان پر عمل ہوسکتا ہے۔ مگر حدود شرعیہ میں نہیں ہوسکتا( کیوں کہ ڈر ہے کہ پروانہ جعلی نہ ہو) پھر خود ہی کہتے ہیں کہ قتل خطا میں پروانے پر عمل ہوسکتا ہے کیوں کہ وہ اس کی رائے پر مثل مالی دعوؤں کے ہے حالانکہ قتل خطا مالی دعوؤں کی طرح نہیں ہے بلکہ ثبوت کے بعد اس کی سزا مالی ہوتی ہے تو قتل خطا اور عمد دونوں کا حکم ایک رہنا چاہئے۔ ( دونوں میں پروانے کا اعتبار نہ ہونا چاہئے) اور حضرت عمر ؓ نے اپنے عاملوں کو حدود میں پروانے لکھے ہیں اور عمر بن عبدالعزیز نے دانت توڑنے کے مقدمہ میں پروانہ لکھا اور ابراہیم نخعی نے کہا ایک قاضی دوسرے قاضی کے خط پر عمل کرلے جب اس کی مہر اور خط کو پہچانتا ہو تو یہ جائز ہے اور شعبی مہری خط کو جو ایک قاضی کی طرف سے آئے جائز رکھتے تھے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی ایسا ہی منقول ہے اور معاویہ بن عبدالکریم ثقفی نے کہا میں عبدالملک بن یعلیٰ( بصرہ کے قاضی) اور ایاس بن معاویہ( بصریٰ کے قاضی) اور حسن بصری اور ثمامہ بن عبداللہ بن انس اور بلال بن ابی بردہ( بصریٰ کے قاضی) اور عبداللہ بن بریدہ( مرو کے قاضی) اور عامر بن عبیدہ( کوفہ کے قاضی) اور عباد بن منصور( بصریٰ کے قاضی) ان سب سے ملا ہوں۔ یہ سب ایک قاضی کا خط دوسرے قاضی کے نام بغیر گواہوں کے منظور کرتے۔ اگر فریق ثانی جس کو اس خط سے ضرر ہوتا ہے یوں کہے کہ یہ خط جعلی ہے تو اس کو حکم دیں گے کہ اچھا اس کا ثبوت دے اور قاضی کے خط پر سب سے پہلے ابن ابی لیلیٰ( کوفہ کے قاضی) اور سوار بن عبداللہ( بصریٰ کے قاضی) نے گواہی چاہی اور ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے کہا، ہم سے عبیداللہ بن محرز نے بیان کیا کہ میں نے موسیٰ بن انس بصری کے پاس اس مدعی پر گواہ پیش کئے کہ فلاں شخص پر میرا اتنا حق آتا ہے اور وہ کوفہ میں ہے پھر میں ان کا خط لے کر قاسم بن عبدالرحمن کوفہ کے قاضی کے پاس آیا۔ انہوں نے اس کو منظور کیا اور امام حسن بصری اور ابوقلابہ نے کہا وصیت نامہ پر اس وقت تک گواہی کرنا مکروہ ہے جب تک اس کا مضمون نہ سمجھ لے ایسا نہ ہو وہ ظلم اور خلاف شرع ہو۔ اور آنحضرت ﷺ نے خیبر کے یہودیوں کو خط بھیجا کہ یا تو اس شخص( یعنی عبداللہ بن سہل) مقتول کی دیت دو جو تمہاری بستی میں مارا گیا ہے ورنہ جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ۔ اور زہری نے کہا اگر عورت پردے کی آڑ میں ہو اور آواز وغیرہ سے تو اسے پہچانتا ہو تو اس پر گواہی دے سکتا ہے ورنہ نہیں۔
7228. سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: جب نبی ﷺ نے اہل روم کو خط لکھنا چاہا تو صحابہ کرام ؓ نے کہا: اہل روم صرف سر بمہر خط قبول کرتے ہیں،چنانچہ نبی ﷺ نے چاندی کی ایک مہر بنوائی گویا میں اس کی چمک کو اب بھی دیکھ رہا ہوں۔ اس پر ”محمد رسول اللہ“ کے الفاظ کنندہ تھے