تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے صف بندی کے متعلق متعدد احادیث پیش کی ہیں اور مذکورہ عنوان اس سلسلے کا آخری عنوان ہے۔ اس میں آپ نے بتایا کہ صفوں کو سیدھا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر نمازی اپنے قریب والے نمازی کے کندھے سے کندھا، قدم سے قدم اور ٹخنے سے ٹخنا ملا کر کھڑا ہو۔ اس کے متعلق حضرت نعمان بن بشیر اور حضرت انس ؓ کا بیان نقل ہوا ہے کہ ہم اپنے ساتھی کے ٹخنے سے ٹخنا ملا کر کھڑے ہوتے تھے۔
(2) بعض روایات میں حضرت انس ؓ کے یہ الفاظ منقول ہیں کہ اگر میں آج اپنے ساتھی کے قدم سے قدم اور ٹخنے سے ٹخنا ملانے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ سرکش خچر کی طرح بدکتا اور دور بھاگتا ہے۔ (فتح الباري:274/2) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا عہد ختم ہوتے ہوتے مسلمان اس سنت سے غافل ہونے لگے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کی ہدایت کے مطابق صفوں کو سیدھا کرنے اور قدم سے قدم ملانے کا عمل ایک اجنبی عمل بن گیا تھا جس پر حضرت انس ؓ کو اظہار افسوس کرنا پڑا۔ امام محمد ؒ امام نخعی ؒ کا قول نقل کرتے ہیں: صفیں اور کندھے برابر کرو، انھیں باہم پیوست رکھو کہیں شگافوں سے شیطان دخل اندازی نہ کرے۔
(3) امام محمد ؒ فرماتے ہیں کہ ہمارا بھی اسی پر عمل ہے کہ صف میں کوئی شگاف نہیں چھوڑنا چاہیے تاآنکہ انھیں درست نہ کر لیا جائے۔ امام ابو حنیفہ ؒ کا بھی یہی مذہب ہے۔ (کتاب الآثار للشیباني، باب إقامة الصفوف و فضل الصف الأول:192/1 - 195) اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا یہ معمول تھا کہ جب تک صفیں درست نہ ہوجاتیں نماز شروع نہ کرتے۔ عہد فاروقی میں اس کارخیر کے لیے کارندے تعینات تھے مگر آج سب سے زیادہ متروک یہی عمل ہے، حالانکہ یہ کوئی اختلافی نہیں۔