تشریح:
1۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہودی کے جواب میں جو ارشاد فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمار لیے تو وہ دن عید ہی کا شمار ہوتا ہے، یعنی جمعے کے دن مسلمانوں کی ہفتہ وار عید ہوتی ہے۔
2۔اس آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تقریباً اسی(80) دن زندہ رہے۔ واقعی اس وقت دین اسلام کے اصول وارکان مکمل ہوچکےتھے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک آیت کا مدلول یہ ہے کہ اس امت مرحومہ نے کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھام رکھا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس اُمت پر اس آیت کریمہ کے ذریعے سے احسان فرمایا کہ ان کے دین کو کامل ان پر اپنی نعمت کو پوراکرنے اور ان کے لیے دین اسلام کا انتخاب کرنے کے سبب ان سے رضا مندی کا اظہار کیا ہے۔ (عمدة القاري: 498/16)
3۔مذکورہ آیت کریمہ محرمات کے ذکر کے درمیان ایک جملہ معترضہ کے طور پر ہے جس سے مقصود یہ بتانا ہے کہ ان محرمات کا استعمال فسق اور حرام ہے اور ان اشیاء کی حرمت، دین کامل کا ایک حصہ اوراتمام نعمت ہے۔ دین سے مراد شریعت کے تمام اصول اور احکام وہدایات ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد مسلمانوں کو زندگی کے کس بھی پہلو میں، خواہ وہ معاشرتی پہلو یا معاشی یا سیاسی، باہر سے کوئی بھی اصول اسلام میں درآمد کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ اسی اعتبارسے اسلام میں مغربی جمہوریت، اشتراکیت، کمیونزم، سوشلزم یا کسی اور ازم کو داخل کرنے کی گنجائش نہیں رہتی۔ یہی صورت حال بدعات ومحدثات کی ہے۔ اس اعتبار سے مسلمانوں پر سب سے بڑی نعمت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسی جامع ہدایات عطا فرما دی ہیں جن سے دنیا کی زندگی بھی کامیاب اور خوشگوار ہوجاتی ہے اور ان پر عمل پیرا ہونے سے اُخروی نجات بھی یقینی بن جاتی ہے۔ واللہ أعلم۔