تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ نے جو عنوان قائم کیا ہے وہ دراصل ایک مرفوع حدیث کے الفاظ ہیں۔ جیسے امام ابن عبدالبرؒ نے روایت کیا ہے اکیلی عورت، مستقل صف کا حکم رکھتی ہے۔ بعض فقہاء کا خیال ہے کہ اگر نماز کے لیے صرف امام اور ایک عورت ہو تو عورت کو امام کی دائیں جانب کھڑا ہونا چاہیے۔ امام بخاری ؒ نے اس موقف کی تردید کی ہے کہ ایسے حالات میں عورت کو اکیلے کھڑا ہونا چاہیے، کیونکہ پیش کردہ حدیث میں حضرت ام سلیم ؓ اکیلی کھڑی ہوئی تھیں۔ اسی طرح اگر مقتدی دو ہوں تو انھیں امام کے پیچھے صف بنانا ہو گی، جبکہ بعض اہل کوفہ کا موقف ہے کہ ایک امام کی دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب ہو گا۔ ان کی دلیل حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا عمل ہے کہ انھوں نے ایک دفعہ جماعت کراتے وقت حضرت علقمہ کو دائیں جانب اور حضرت اسود کو اپنی بائیں جانب کھڑا کیا تھا۔ اس کا جواب امام ابن سیرین نے دیا ہےکہ انھوں نے ایسا جگہ کی تنگی کی وجہ سے کیا تھا۔ عام حالات میں ایسا کرنا صحیح نہیں، جیسا کہ حدیث بالا میں وضاحت ہے ۔(فتح الباري:275/2)
(2) عورت چونکہ مرد کے لیے باعث فتنہ ہے، اس لیے اسے نماز باجماعت کے وقت مردوں کے ساتھ، یعنی ان کے برابر کھڑا ہونے کی اجازت نہیں۔ اگر وہ مخالفت کرتے ہوئے ان کے برابر کھڑی ہوجائے تو اسے گناہ تو ضرور ہوگا، لیکن اس کی نماز ہوجائے گی۔ احناف کے نزدیک اگر نماز میں عورت، مرد کے برابر آگئی تو مرد کی نماز باطل ہوجائے گی، البتہ عورت کی نماز درست ہے۔ ان کی دلیل حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا قول ہے:’’جب انھیں اللہ تعالیٰ نے مؤخر رکھا ہے تو تم بھی انھیں ہر معاملہ میں مؤخر رکھو۔‘‘ احناف کی یہ ایک ایسی دلیل ہے جس کا بودا پن واضح ہے۔ ایک طرف مرد کی نماز کو باطل اور عورت کی نماز کو درست کہتے ہیں، حالانکہ برابر آنے کا فعل عورت کا ہے اور حکم کی مخالفت کرنے والی بھی عورت ہے جبکہ اس سےملتے جلتے مسئلے میں ابطال صلاۃ کا حکم نہیں لگاتے، مثلاً: کیونکہ حدیث میں غصب کردہ کپڑوں میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہے، اگر کوئی اس کے خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسے کپڑوں میں نماز پڑھ لے تو گناہ گار ہونے کے باوجود احناف کے نزدیک بھی اس کی نماز ہوجائے گی۔ (فتح الباري:275/2)
(3) بعض شارحین کا خیال ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے ذریعے سے ایک حدیث کے عموم کو خاص کیا ہے جس کے الفاظ ہیں: ’’صف کے پیچھے اکیلے کی نماز نہیں ہوتی۔‘‘ اس حدیث کے عموم سے ایک استثنائی صورت کو الگ کیا گیا ہے کہ یہ حدیث صرف مردوں کے لیے ہے عورتوں کے لیے نہیں۔ اکیلی عورت مردوں کے پیچھے نماز پڑھ سکتی ہے۔ (فتح الباري:276/2) والله أعلم۔