Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: If the Imam weeps in As-Salat (the prayers) (will his Salat be valid?))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یہ سورۃ یوسف کی آیت کا ایک جملہ ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ میں اپنے غم اور فکر کی شکایت اللہ ہی سے کرتا ہوں، یہ حضرت یعقوب ؑ نے فرمایا تھا۔
727.
ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی مرض (وفات) میں فرمایا: ’’ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں: میں نے آپ سے عرض کیا کہ ابوبکر ؓ جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو اپنی آواز نہیں سنا سکیں گے، اس لیے آپ حضرت عمر ؓ کو حکم دیجیے کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں: میں نے حضرت حفصہ سے کہا کہ تم نبی ﷺ سے عرض کرو کہ جب ابوبکر ؓ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو اپنی قراءت نہیں سنا سکیں گے، لہذا آپ حضرت عمر ؓ کو حکم دیجیے کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، چنانچہ حضرت حفصہ ؓ نے ایسے ہی کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’چپ رہو! تم تو یوسف ؑ والی عورتوں کی طرح معلوم ہوتی ہو۔ ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘ اس پر حضرت حفصہ ؓ نے حضرت عائشہ ؓ سے کہا کہ میں نے کبھی تجھ سے بھلائی نہیں پائی۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ امام رسول اللہ ﷺ تھے لیکن اس میں آپ کے رونے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری سے قبل ابوبکر ؓ ہی امام تھے اور ان کے متعلق صدیقۂ کائنات ؓ کا مشاہدہ تھا کہ وہ نماز میں تلاوت کرتے وقت ضرور رویا کرتے تھے، لہٰذا امام کا نماز میں رونا ثابت ہوا۔ اگرچہ اس خاص واقعے میں آپ کے رونے کا ذکر نہیں ہے، تاہم اس کے بغیر حدیث کی عنوان سے کوئی مطابقت نہیں ہوسکتی۔ حافظ ابن حجر ؒ نے مطابقت کے متعلق کچھ نہیں لکھا، البتہ آپ نے عنوان کو ثابت کرنے کے لیے حضرت عبداللہ بن شخیر ؓ کی ایک روایت کا حوالہ دیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھاتے ہوئے دیکھا کہ آپ کے سینۂ مبارک سے اس طرح رونے کی آواز آ رہی تھی جس طرح ہنڈیا ابلتی ہے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:904) (2) واضح رہے کہ اگر نماز میں رونا کسی تکلیف یا درد کی وجہ سے ہوتو نماز درست نہیں رہے گی، اگر جنت اور جہنم یا امور آخرت کی وجہ سے ہو تو باعث ثواب ہے اور ایسا کرنا رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے جیسا کہ حدیث بالا سے معلوم ہوتا ہے۔ والله أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
708
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
716
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
716
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
716
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کن موقف اختیار نہیں کیا،البتہ اثر حدیث سے امام بخاری کے رجحان کا پتہ چلتا ہے کہ اگر نماز میں رونا آجائے تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔اس اثر کو سعید بن منصور نے اپنی سند سے متصل بیان کیا ہے اور اس میں اضافہ کیا ہے کہ ایسا نماز صبح میں ہوا تھا۔(فتح الباری:2/267)
یہ سورۃ یوسف کی آیت کا ایک جملہ ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ میں اپنے غم اور فکر کی شکایت اللہ ہی سے کرتا ہوں، یہ حضرت یعقوب ؑ نے فرمایا تھا۔
حدیث ترجمہ:
ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی مرض (وفات) میں فرمایا: ’’ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں: میں نے آپ سے عرض کیا کہ ابوبکر ؓ جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو اپنی آواز نہیں سنا سکیں گے، اس لیے آپ حضرت عمر ؓ کو حکم دیجیے کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں: میں نے حضرت حفصہ سے کہا کہ تم نبی ﷺ سے عرض کرو کہ جب ابوبکر ؓ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو اپنی قراءت نہیں سنا سکیں گے، لہذا آپ حضرت عمر ؓ کو حکم دیجیے کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، چنانچہ حضرت حفصہ ؓ نے ایسے ہی کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’چپ رہو! تم تو یوسف ؑ والی عورتوں کی طرح معلوم ہوتی ہو۔ ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘ اس پر حضرت حفصہ ؓ نے حضرت عائشہ ؓ سے کہا کہ میں نے کبھی تجھ سے بھلائی نہیں پائی۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ امام رسول اللہ ﷺ تھے لیکن اس میں آپ کے رونے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری سے قبل ابوبکر ؓ ہی امام تھے اور ان کے متعلق صدیقۂ کائنات ؓ کا مشاہدہ تھا کہ وہ نماز میں تلاوت کرتے وقت ضرور رویا کرتے تھے، لہٰذا امام کا نماز میں رونا ثابت ہوا۔ اگرچہ اس خاص واقعے میں آپ کے رونے کا ذکر نہیں ہے، تاہم اس کے بغیر حدیث کی عنوان سے کوئی مطابقت نہیں ہوسکتی۔ حافظ ابن حجر ؒ نے مطابقت کے متعلق کچھ نہیں لکھا، البتہ آپ نے عنوان کو ثابت کرنے کے لیے حضرت عبداللہ بن شخیر ؓ کی ایک روایت کا حوالہ دیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھاتے ہوئے دیکھا کہ آپ کے سینۂ مبارک سے اس طرح رونے کی آواز آ رہی تھی جس طرح ہنڈیا ابلتی ہے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:904) (2) واضح رہے کہ اگر نماز میں رونا کسی تکلیف یا درد کی وجہ سے ہوتو نماز درست نہیں رہے گی، اگر جنت اور جہنم یا امور آخرت کی وجہ سے ہو تو باعث ثواب ہے اور ایسا کرنا رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے جیسا کہ حدیث بالا سے معلوم ہوتا ہے۔ والله أعلم
ترجمۃ الباب:
حضرت عبداللہ بن شداد کہتے ہیں کہ میں نے دوران نماز میں حضرت عمر ؓ کے رونے کی آواز سنی، حالانکہ میں سب سے پچھلی صف میں تھا۔ آپ یہ آیت کریمہ تلاوت کر رہے تھے: "میں اپنے غم اور پریشانی کی شکایت صرف اللہ ہی سے کرتا ہوں۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک بن انس نے ہشام بن عروہ سے بیان کیا، انہوں نے اپنے باپ سے، انہوں نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے مرض الوفات میں فرمایا کہ ابوبکر سے لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کی کہ ابوبکر اگر آپ کی جگہ کھڑے ہوئے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو اپنی آواز نہ سنا سکیں گے۔ اس لیے آپ عمر ؓ سے فرمائیے کہ وہ نماز پڑھائیں۔ آپ نے پھر فرمایا کہ نہیں ابوبکر ہی سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے حفصہ ؓ سے کہا کہ تم بھی تو آنحضرت ﷺ سے عرض کرو کہ اگر ابوبکر آپ کی جگہ کھڑے ہوئے تو آپ کو یاد کر کے گریہ و زاری کی وجہ سے لوگوں کو قرآن نہ سنا سکیں گے۔ اس لیے عمر ؓ سے کہئے کہ وہ نماز پڑھائیں۔ حضرت حفصہ ؓ نے بھی کہہ دیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ بس چپ رہو، تم لوگ صواحب یوسف سے کسی طرح کم نہیں ہو۔ ابوبکر سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں۔ بعد میں حضرت حفصہ ؓ نے حضرت عائشہ ؓ سے کہا۔ بھلا مجھ کو تم سے کہیں بھلائی ہونی ہے۔
حدیث حاشیہ:
مقصد باب یہ ہے کہ رونے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی۔ جنت یا دوزخ کے ذکر پر رونا تو عین مطلوب ہے، کئی احادیث سے آنحضور ﷺ کا نماز میں رونا ثابت ہے۔ یہ حدیث پہلے کئی جگہ گزر چکی ہے اور امام المحدثین ؒ نے اس سے بہت سے مسائل اخذ کئے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے صدیق اکبر ؓ کے رونے کا ذکر سنا پھر بھی آپ نے ان کو نماز کے لیے حکم فرمایا۔ پس دعویٰ ثابت ہوا کہ رونے سے نماز نہیں ٹوٹ سکتی۔ صواحب یوسف کی تفسیر پہلے گزر چکی ہے۔ زلیخا اور اس کے ساتھ والی عورتیں مراد ہیں۔ جن کی زبان پر کچھ تھا اور دل میں کچھ اور۔ حضرت حفصہ ؓ اپنے کہنے پر پچھتائی اور اسی لیے حضرت عائشہ ؓ پر اظہار خفگی فرمایا۔ (رضي اللہ عنهن أجمعین)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): The mother of the faithful believers: Allah's Apostle (ﷺ) in his last illness said, "Tell Abu Bakr (RA) to lead the people in the prayer." I said, "If Abu Bakr (RA) stood in your place, he would not be able to make the people hear him owing to his weeping. So please order 'Umar to lead the prayer." He said, "Tell Abu Bakr (RA) to lead the people in the prayer." I said to Hafsah (RA), "Say to him, ' Abu Bakr (RA) is a softhearted man and if he stood in your place he would not be able to make the people hear him owing to his weeping. So order 'Umar to lead the people in the prayer.' " Hafsah (RA) did so but Allah's Apostle (ﷺ) said, "Keep quiet. Verily you are the companions of (Prophet) Joseph. Tell Abu Bakr (RA) to lead the people in the prayer." Hafsah (RA) said to me, "I never got any good from you."