تشریح:
1۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے خدمت گزار تھے، ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ر فع حاجت کے لیے گئے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پانی وغیرہ کا اہتمام کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب پانی دیکھا تو فرمایا: ’’یہ کس نے رکھا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ اہتمام کیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈھیروں دعائیں دیں۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’اے اللہ! اسے دین کے متعلق فقاہت عطا فرما۔‘‘ (صحیح البخاری، الوضوء، حدیث: 143) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنے سینہ مبارک سے چمٹایا اور دعا دی: ’’اے اللہ! اسے حکمت اور دانائی کی تعلیم دے۔‘‘ (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم حدیث: 3756) مذکورہ حدیث کےآخر میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے "حکمت" کی تعریف ان الفاظ سے کی ہے: ’’اصابت رائے جو نبوت کے علاوہ ہو۔‘‘
2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا اثر یہ ہوا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس امت کے بہت بڑے عالم "حبرالأمة" ہوئے۔ خاص طور پر علم تفسیر میں ان کا کوئی ہم پلہ نہیں تھا۔ علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’دعائیں دینے سے مقصود یہ تھا کہ کتاب وسنت کو سیکھ کر اسے مضبوطی سے تھام لیں اور اس کے مطابق عمل کریں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مقصود ہے۔ (عمدة القاري: 499/16)