تشریح:
1۔دراصل جب ابن زیاد اور مروان نے ملک شام کا کنڑول سنبھال لیا اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مکے پر اور خوارج نے بصرے پر قبضہ کرلیا توحضرت ابومنہال اپنے والد کے ہمراہ حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئے اور انھیں صورت حال سے آگاہ کیا تو انھوں نےفرمایا: میں جو لوگوں سے ناراض ہوں تو محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اللہ تعالیٰ ہی مجھے اس کا اجر دے گا۔عرب کے لوگو! تم جانتے ہو تمہارا کیا حال تھا کہ تم سب ذلت وقلت اور گمراہی سے گرفتار تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کےذریعے سے تمھیں عزت دی اور تمھیں اس بری حالت سے نکالا، پھر اس دنیا نے تمھیں خراب کر دیا۔ دیکھو! یہ شخص جو شام میں حاکم بن بیٹھا ہے وہ دنیا کے لیے لڑ رہا ہے۔ یہ لوگ جو تمہارے سامنے ہیں یہ بھی دنیا کے لیے لڑتے ہیں اور جو مکے میں ہے اللہ کی قسم! وہ بھی حصول دنیا کی خاطر قتال میں مصروف ہے۔ (صحیح البخاري، الفتن، حدیث: 7112)
2۔مقصد یہ ہے کہ تم ذلیل وقلیل اور محتاج تھے۔ تمھیں کتاب وسنت پر عمل کرنے کے نتیجے میں دنیا کی عزت وکثرت اور دولت ملی ہے، اس لیے تم اسلام پر ہی کاربند رہنا، بصورت دیگرذلت ورسوائی کاسامنا کرنا پڑے گا۔
3۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے الگ ایک کتاب "الاعتصام" لکھی تھی جس سے اپنی صحیح میں حدیثیں نقل کی ہیں۔ واللہ أعلم۔