تشریح:
(1) جب دو شخص آمنے سامنے ہوں تو ایک کی دائیں جانب کی طرف دوسرے کی بائیں جانب ہوتی ہے، اس اصول کے پیش نظر امام کا میمنہ تو اس کی دائیں جانب ہوگا، لیکن مسجد کا چہرہ چونکہ امام کی طرف ہوتا ہے، اس لیے مسجد کی دائیں جانب امام کے برعکس ہوگی، کیونکہ بالمقابل کی دائیں جانب دوسرے کی بائیں جانب ہوتی ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس وہم کو دور فرمایا ہے کہ جو امام کا میمنہ ہے وہی مسجد کا میمنہ ہے، دونوں میں کوئی فرق نہیں، یعنی نماز کے استقبال کا لحاظ رکھا جائے گا، اسی طرح مسجد کا میمنہ بھی استقبال کے اعتبار سے ہوگا۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ اپنے قائم کردہ عنوان میں بعض اوقات ایسی روایت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو قابل اعتبار ہوتی ہیں، لیکن ان کی شرط کے مطابق نہیں ہوتی، چونکہ حضرت براء ؓ سے روایت ہے کہ ہم نماز کے لیے دائیں جانب کو پسند کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث:1642(709)) اس سے مسجد کی دائیں جانب کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ پیش کردہ روایت میں اگرچہ امام کی دائیں جانب کا ذکر ہے، تاہم امام بخاری ؒ کا اشارہ ان روایات کی طرف بھی ہے جن میں صفوں کی دائیں جانب کا ذکر ہے۔
(2) سنن ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے کہ جس نے مسجد کی بائیں جانب کو آباد کیا اسے دو گنا اجر دیا جائے گا۔ (سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات ، حدیث:1007) اس میں بائیں جانب کی فضیلت کا ذکر ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے۔