باب: تکبیر ہوتے وقت اور تکبیر کے بعد صفوں کا برابر کرنا۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: Straightening the rows at the time of Iqama and after it (immediately))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
728.
حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اپنی صفوں کو ضرور سیدھا کرو بصورت دیگر اللہ تعالیٰ تمہارے چہروں میں مخالفت پیدا کر دے گا۔‘‘
تشریح:
(1) نماز کے لیے صفوں کا سیدھا کرنا ضروری ہے، خواہ اقامت سے پہلے یا اس کے دوران میں یا اس کے بعد ہو، وقت کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ امام بخاری ؒ نے پہلے ایک عنوان قائم کیا تھا کہ تکبیر کے وقت جب لوگ امام کو دیکھ لیں تو نماز کے لیے کھڑے ہو جائیں۔ اس کا تقاضا تھا کہ تکبیر کے بعد فوراً نماز کھڑی کر دینی چاہیے۔ امام بخاری ؒ نے مذکور بالا عنوان قائم کر کے یہ تنبیہ فرمادی کہ اگر صفوں میں کچھ کمی رہ گئی ہوتو انھیں اقامت کے بعد بھی درست کیا جاسکتا ہے، بہر حال امام کو اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ نمازیوں کی صفیں بالکل سیدھی ہوں،ا ن میں کوئی شگاف نہ ہو۔ امام بخاری ؒ نے حدیث کے عموم سے استدلال کیا ہے کہ صفوں کو سیدھا کرنے کےلیے وقت کی کوئی پابندی نہیں۔ حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے عنوان میں اقامت کے وقت یا اس کے بعد کے الفاظ بڑھا کر حسب عادت حدیث کے بعض طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ تنبیہ اس وقت فرمائی جب تکبیر تحریمہ کہنے والے تھے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:719) اور حضرت انس ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ جب نماز کے لیے اقامت کہہ دی گئی تو اس وقت ہماری طرف متوجہ ہو کر مذکورہ تنبیہ ارشاد فرمائی۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:979(436)) (2) صفوں کو سیدھا کرنا ضروری ہے۔ اگر اس سلسلے میں کوتاہی کی تو ظاہری مخالفت کا اثر باطن پر پڑے گا کہ لوگوں کے درمیان محبت والفت نہیں رہے گی بلکہ ان کے دلوں میں اختلافات پیدا ہوں گے جن سے ان کی وحدت پارہ پارہ ہوگی اور دشمنوں پر ان کا رعب بھی ختم ہوجائے گا، جیسا کہ سنن ابو داؤد میں ہے کہ صفوں کو سیدھا کرو بصورت دیگر اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں اختلاف پیدا کردے گا۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:662) یہ بھی ممکن ہے کہ صفوں کے متعلق شرعی حکم کی مخالفت کرنے سے چہروں میں بگاڑ پیدا ہوجائے، انھیں گدی کی جانب کردیا جائے یا انھیں بالکل مسخ کرکے کسی حیوان کی صورت میں تبدیل کردیا جائے۔ بعض روایات سے اس مفہوم کی بھی تائید ہوتی ہے۔ (فتح الباري:269/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
709
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
717
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
717
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
717
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اپنی صفوں کو ضرور سیدھا کرو بصورت دیگر اللہ تعالیٰ تمہارے چہروں میں مخالفت پیدا کر دے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) نماز کے لیے صفوں کا سیدھا کرنا ضروری ہے، خواہ اقامت سے پہلے یا اس کے دوران میں یا اس کے بعد ہو، وقت کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ امام بخاری ؒ نے پہلے ایک عنوان قائم کیا تھا کہ تکبیر کے وقت جب لوگ امام کو دیکھ لیں تو نماز کے لیے کھڑے ہو جائیں۔ اس کا تقاضا تھا کہ تکبیر کے بعد فوراً نماز کھڑی کر دینی چاہیے۔ امام بخاری ؒ نے مذکور بالا عنوان قائم کر کے یہ تنبیہ فرمادی کہ اگر صفوں میں کچھ کمی رہ گئی ہوتو انھیں اقامت کے بعد بھی درست کیا جاسکتا ہے، بہر حال امام کو اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ نمازیوں کی صفیں بالکل سیدھی ہوں،ا ن میں کوئی شگاف نہ ہو۔ امام بخاری ؒ نے حدیث کے عموم سے استدلال کیا ہے کہ صفوں کو سیدھا کرنے کےلیے وقت کی کوئی پابندی نہیں۔ حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے عنوان میں اقامت کے وقت یا اس کے بعد کے الفاظ بڑھا کر حسب عادت حدیث کے بعض طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ تنبیہ اس وقت فرمائی جب تکبیر تحریمہ کہنے والے تھے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:719) اور حضرت انس ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ جب نماز کے لیے اقامت کہہ دی گئی تو اس وقت ہماری طرف متوجہ ہو کر مذکورہ تنبیہ ارشاد فرمائی۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:979(436)) (2) صفوں کو سیدھا کرنا ضروری ہے۔ اگر اس سلسلے میں کوتاہی کی تو ظاہری مخالفت کا اثر باطن پر پڑے گا کہ لوگوں کے درمیان محبت والفت نہیں رہے گی بلکہ ان کے دلوں میں اختلافات پیدا ہوں گے جن سے ان کی وحدت پارہ پارہ ہوگی اور دشمنوں پر ان کا رعب بھی ختم ہوجائے گا، جیسا کہ سنن ابو داؤد میں ہے کہ صفوں کو سیدھا کرو بصورت دیگر اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں اختلاف پیدا کردے گا۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:662) یہ بھی ممکن ہے کہ صفوں کے متعلق شرعی حکم کی مخالفت کرنے سے چہروں میں بگاڑ پیدا ہوجائے، انھیں گدی کی جانب کردیا جائے یا انھیں بالکل مسخ کرکے کسی حیوان کی صورت میں تبدیل کردیا جائے۔ بعض روایات سے اس مفہوم کی بھی تائید ہوتی ہے۔ (فتح الباري:269/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے سالم بن ابوالجعد سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے نعمان بن بشیر ؓ سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: نماز میں اپنی صفوں کو برابر کرلو، نہیں تو اللہ تعالیٰ تمہارا منہ الٹ دے گا۔
حدیث حاشیہ:
یعنی مسخ کر دے گا۔ بعض نے یہ مراد لی کہ پھوٹ ڈال دے گا۔ باب کی حدیثوں میں یہ مضمون نہیں ہے کہ تکبیر کے بعد صفوں کو برابر کرو، لیکن امام بخاری ؒ نے ان حدیثوں کے دوسرے طریقوں کی طرف اشارہ کیا، چنانچہ آگے چل کر خود امام بخاری ؒ نے اسی حدیث کو اس طرح نکالا ہے کہ نماز کی تکبیر ہونے کے بعد آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور یہ فرمایا۔ اور مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ تکبیر کہہ کر نماز شروع کرنے کو تھے کہ یہ فرمایا۔ امام ابن حزم ؒ نے ان حدیثوں کے ظاہر سے یہ کہا ہے کہ صفیں برابر کرنا واجب ہے اور جمہور علماء کے نزدیک سنت ہے اور یہ وعید اس لیے فرمائی کہ لوگ اس سنت کا بخوبی خیال رکھیں۔ برابر رکھنے سے یہ غرض ہے کہ ایک خط مستقیم پر کھڑے ہوں گے، آگے پیچھے نہ کھڑے ہوں۔ یا صف میں جو جگہ خالی رہے اس کو بھردیں۔ (مولانا وحید الزماں مرحوم) علامہ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: ''ویحتمل أن یکون البخاري أخذ الوجوب من صيغة الأمر في قوله سووا صفوفکم و من عموم قوله صلوا کما رأیتموني أصلي و من ورود الوعید علی ترکهرالخ''یعنی ممکن ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے صیغہ امر سے سووا صفوفکم ( صفوں کو سیدھا کرو ) سے وجوب نکالا ہو اور حدیث نبوی کے اس عموم سے بھی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسی نماز پڑھو جیسی نماز پڑھتے ہوئے تم نے مجھ کو دیکھا ہے۔ صحیح روایت سے ثابت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابو عثمان نہدی کے قدم پر مارا جب کہ وہ صف میں سیدھے کھڑے نہیں ہو رہے تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا بھی یہی دستور تھا کہ جس کو وہ صف میں ٹیڑھا دیکھتے وہ ان کے قدموں کو مارنا شروع کردیتے۔ الغرض صفوں کو سیدھا کرنا بےحد ضروری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated An-Nu'man bin 'Bashir (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Straighten your rows or Allah will alter your faces."