تشریح:
1۔اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ مومن انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہے گا: حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس کھلی اور واضح نشانیاں لے کر آئے ہم نے انھیں قبول کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے، لہذا مومن وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہو اور اس طریقے کو اپنی زندگی کا حصہ بنائے، نیز اس حدیث سے زندگی گزارنے کے لیے ایک راستے اور منہج کی رہنمائی ہوتی ہے اور وہ ہے قرآن وحدیث کے دلائل کے سامنے سرتسلیم خم کرنا، انھیں مان لینا اور ان کے مطابق عمل کرنا۔ یہ اہل ایمان کی علامت ہے اور اُخروی کامیابی کے لیے ایسا رویہ انتہائی ضروری ہے۔
2۔اس کے برعکس قرآن وحدیث کے دلائل دیکھ کر لوگوں کی باتوں کو ترجیح دینا، اقوال رجال کو ماننا اور بزرگوں کی باتوں کو قابل عمل ٹھہرانا ایک مومن کا طریقہ کار نہیں ہو سکتا بلکہ ایسا رویہ وہ اختیار کرتا ہے جو شکوک وشبہات میں مبتلا ہو یا کفر ونفاق میں ڈوبا ہوا ہو۔ بہرحال ہمیں اس حدیث میں بیان کردہ طریقے اور منہج کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے اور منافق یا شک میں مبتلا شخص کے طریق کار کو خیرباد کہہ دینا چاہیے اسی میں ہماری نجات اور اُخروی کامیابی ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے اختیار کرنے کی توفیق دے۔ آمین