تشریح:
1۔مذکورہ واقعہ رمضان المبارک میں نمازتراویح کے متعلق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں ایک جگہ چٹائی کا حجرہ بنایا تاکہ اس میں نماز پڑھیں اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکیں، لیکن لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں تین دن تک نماز تراویح ادا کی۔ چونکہ نزول وحی کا زمانہ تھا اور اس کےفرض ہونے کا خطرہ تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کےبعد جماعت کااہتمام ترک کردیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ اندیشہ ختم ہوگیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز تراویح کی جماعت کا اہتمام مسجد میں کردیا۔
2۔اس حدیث کا عنوان سے تعلق اس طرح ہے کہ لوگوں کو مسجد میں نماز تراویح ادا کرنے کا حکم نہیں ہوا تھا لیکن انھوں نے از خود اپنے آپ پر یہ پابندی عائد کرلی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر شفقت کرتے ہوئے انھیں اس سے باز رکھا۔ معلوم ہوا کہ سنت کی پیروی ہی میں نجات اور عزت ہے۔ خلاف سنت عبادت کے علاوہ سختی اٹھانا اورشرطیں لگانا اچھی بات نہیں۔
3۔واضح رہے کہ فرض نماز کے علاوہ نماز عید اور نماز گرہن وغیرہ مسجد میں ادا کی جاتی ہیں کیونہ یہ نماز شعائر اسلام سے تعلق رکھتی ہیں، اس لیے ان کا حکم فرض نماز جیسا ہے۔اسی طرح تحیۃ المسجد اور طواف کی دورکعت بھی مسجد میں پڑھی جاتی ہیں تو یہ خارجی دلائل کی بنا پر حدیث میں مذکورہ عام حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ واللہ أعلم۔