تشریح:
(1) حدیث عائشہ کے متعلق دیگر روایات میں وضاحت ہے کہ ایسا ماہ رمضان میں ہوا۔ (صحیح البخاري، التھجد، حدیث:1129) نیز چوتھی رات لوگ اتنے جمع ہوگئے کہ مسجد ان وجہ سے تنگ ہوگئی۔ (صحیح البخاري، الجمعة، حدیث:924) آپ نے نماز فجر کے بعد لوگوں سے خطاب فرمایا:’’لوگو! وہی اعمال بجالاؤ جن کی کی بجاآوری کی تم ہمت رکھتے ہو۔ اللہ تعالیٰ تواپنے دینے میں تنگ دلی نہیں دکھائے گا، البتہ تم خود تنگ آکر اس عمل کو چھوڑ دو گے۔ اللہ کے ہاں پسندیدہ عمل وہی ہے جس پر دوام کیا جائے اگرچہ وہ مقدار میں کم ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث:5861) حدیث زید بن ثابت کے متعلق دیگر روایات میں مزید وضاحت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ اگلے دن لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے تشریف نہ لائے تو انھوں نے بآواز بلند تسبیحات کہنا شروع کر دیں۔ بعض نے دروازے کو کنکریاں مارنا شروع کردیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ غصے کی حالت میں ان کے ہاں تشریف لائے۔ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث:6113) ایک روایت میں ہے کہ جب لوگوں نے اگلے دن نبی ﷺ کی آواز نہ سنی تو خیال کیا کہ شاید آپ سورہے ہوں، اس لیے بآواز بلند کھانسنے لگے تاکہ آپ تشریف لائیں اور ہمیں نماز پڑھائیں۔آپ نے فرمایا:’’مجھے اندیشہ ہے مبادا تمھارے ذوق وشوق کے پیش نظر نماز تہجد تم پر فرض ہوجائے۔ اگر فرض کردی گئی تو پھر تم اس کا اہتمام نہیں کرسکو گے۔‘‘ (صحیح البخاري، الاعتصام بالکتاب والسنة، حدیث :7290)(2) شریعت نے نوافل کی ادائیگی مسجد میں اور فرائض گھروں میں ادا کرنے کو پسند نہیں فرمایا۔ رسول اللہ ﷺ نماز سے پہلے اور بعد کی سنتیں عام طور پر گھر میں ادا کرتے تھے۔ صبح کی سنتیں تو نبی ﷺ سے مسجد میں پڑھنا ثابت ہی نہیں ۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ نفل نماز کے لیے گھر اور مسجد کے ثواب میں وہی نسبت ہے جو جماعت اور تنہا نماز کے ثواب میں ہے۔ گھر میں نوافل پڑھنے کے کئی ایک فوائد ہیں:٭انسان ریاکاری سے محفوظ رہتا ہے اور نماز کے ثواب کو کم کرنے والی بہت سی چیزوں سے حفاظت ہوجاتی ہے۔٭اس گھر میں اللہ کی رحمت وبرکت کا نزول ہوتا ہے جس میں نماز پڑھی جائے ۔٭اس گھر میں اللہ کے فرشتے اترتے ہیں اور شیاطین وہاں سے بھاگ جاتے ہیں۔ (عمدة القاري:372/4) (3) روایت کے آخر میں امام بخارى ؒ نے ایک مزید سند کا حوالہ دیا ہے۔ ان کی غرض یہ ہے کہ موسیٰ بن عقبہ کا سماع ابو نضر سے ثابت کیا جائے، چنانچہ آخری سند میں اس کی صراحت ہے۔ (فتح الباري:280/2)