تشریح:
1۔حدیث میں مذکورہ آیت کریمہ میں عذاب کی تین قسموں کا ذکر ہے۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں نے اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں کیں، وہ قبول ہوئیں اور ایک (دعا کرنے) سے مجھے روک دیا گیا۔ میں نے اپنے رب سے دعا کی کہ قحط عام کےذریعے سے میری اُمت ہلاک نہ ہو، اللہ تعالیٰ نے اسے قبول کرلیا۔ میں نے دعا کی: میری اُمت غرق کے ذریعے سے ہلاک نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بھی قبول کر لیا۔ پھر میں نے دعا کی کہ آپس میں ان کی لڑائی اور اختلاف نہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے اس سے مجھے روک دیا۔‘‘ (صحیح مسلم، الفتن، حدیث: 7260(2890) مسند احمد میں یہ الفاظ ہیں: ’’میری اُمت گمراہی پر اتفاق نہ کرے۔‘‘ (مسند أحمد: 396/6)
2۔اس حدیث کے مطابق اس اُمت کے مختلف گروہ اور فرقے ہوں گے جو آپس میں جنگ وجدال کرتے رہیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دونوں قسم کے عذاب کے مقابلے میں آسان اور سہل کہا ہے کیونکہ اس میں اہل ایمان کے لیے کفارہ ہے۔ بہرحال اُمت کے لیے نجات کا راستہ یہی ہے کہ وہ کتاب وسنت کے مطابق فیصلے کرے اور زندگی گزارنے کے لیے اسے محورومرکز قرار دے۔ اگر ہم نے دائیں بائیں دیکھا تو التراق واختلاف ہمارا مقدرہوگا، پھر ہم باہمی لڑائی جھگڑے میں مصروف رہیں گے۔ واللہ المستعان۔